انتخابات میں مذہبی جنون

   

اُف آج قیمت ہی نہیں ہے جیسے کوئی خون کی
انسانیت اب ہے کہاں اہلِ جہاں سے پوچھئے
جب کبھی بھی کسی بھی ملک میں انتخابات کا موسم ہوتا ہے تو عوامی مسائل مرکز توجہ بن جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طورپر عوام سے رجوع ہوتی ہیں اور انہیں رجھانے اور تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ برسر اقتدار جماعت کی جانب سے اپنے کارنامے پیشکرتے ہوئے ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی انتخابی عمل اسی نوعیت کا ہوا کرتا تھا ۔ سیاسی جماعتوں کے مابین عوامی مسائل اور نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر مقابلہ ہوا کرتا تھا تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں انتخابی عمل کی نوعیت ہی کو تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ عوامی مسائل ہمیشہ کی طرح انتخابات کے موسم میں بھی کہیں پیچھے چلے گئے ہیں۔ انہیں پس پشت ڈال کر صرف مذہبی جنون پیدا کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے ۔ ملک میں گذشتہ دس برس سے اقتدار پر فائز افراد بھی اپنے عوامی بہتری کے کاموںکو گنوانے کے موقف میں نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی بنیاد پر عوامی تائیدو حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ صرف مذہبی جنون کا سہارا لیا جا رہا ہے اور عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹاتے ہوئے انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بھی مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔حیرت اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ ہندو برادری کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی ہوسکے ۔ مسلمانوں کو ‘ جنہوں نے اس ملک کو آزادی دلانے میں انتہائی سرگرم رول ادا کیا ہے ‘ در انداز قرار دینے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ الفاظ اور لب و لہجہ کسی معمولی وارڈ ممبر کا نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کسی ایک فرقہ یا برادری کے نہیں ہوتے ۔ سارے ملک کے وزیر اعظم ہوتے ہیں۔ ملک کے ہر شہری کے تعلق سے مساوی سوچ و فکر رکھنا ان کی ذمہد اری ہے لیکن یہی دونوں قائدین مسلمانوں کو تقریبا ہر تقریر میں نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔
کئی ریاستوں کے چیف منسٹرس بھی اس طرح کی تقاریر سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ وہ عوام سے ہندو بھگوانوں کے نام پر یا پھر مندروں کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 2019 کا ووٹ رام مندر کیلئے تھا اور 2024 کا ووٹ کرشن مندر کیلئے دیا جانا چاہئے ۔ یہ سوائے مذہبی جنون پیدا کرنے کے کچھ اور نہیں ہے اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دوسری جماعتوں کو معمولی باتوں پر نوٹس جاری کرنے والا الیکشن کمیشن اس طرح کی تقاریر کے معاملے میں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ۔ اس کی جانب سے نہ از خود کوئی کارروائی کی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی شکایت کرتا ہے تو کچھ کیا جا رہا ہے ۔ کہیں مخالف سیاسی جماعتوںا ور قائدین کو محض اس لئے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی ۔ یہ کوئی سیاسی فریضہ نہیں تھا کہ ہر کوئی اس تقریب میں شرکت کرے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ بی جے پی یا اس کے قائدین کی جانب سے طئے شدہ وقت پر ہی سب وہاں موجود رہیں۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے جب چاہے جہاں چاہے جاسکتا ہے ۔ اگر کوئی نہیں جانا چاہتا تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے ۔اس سے سیاست کا حصہ بنایا جانا بالکل درست نہیں ہے بلکہ اسے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ان قوانین وغیرہ سے ملک کے تقریبا تمام سیاسی قائدین اور خاص طور پر برسر اقتدار جماعتوں کے قائدین واقف ہیں اس کے باوجود ان قوانین کی صریح خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔
بی جے پی اور اس کے قائدین کی ہر ممکنہ کوشش یہی ہے کہ ملک کے عوام بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل پر کوئی بات نہ کریں۔ عوام کے ذہنوں میں ان کے مسائل کے تعلق سے سوال پیدا ہونے نہ پائیں۔ انہیں مذہبی جنون میں الجھا کر ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرلئے جائیں۔ یہ انتخابی اور جمہوری عمل کو کھوکھلا بنانے والا عمل ہے اور اس سے ملک اور عوام کی بدخدمتی ہوتی ہے ۔ ایسا کرنے سے سبھی کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے عوام کومذہبی جذبات کا شکار ہونے کی بجائے اپنے مسائل اور ان کے حل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔