انتخابی تقاریر کا گرتا معیار

   

ملک میں جب کبھی بھی انتخابات کا موسم آتا ہے سیاسی قائدین کی سرگرمیوں میںاضافہ ہوجاتا ہے ۔ خاص طور پر بڑے قائدین کی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں اور وہ جن ریاستوں میں انتخابات ہوتے ہیںوہاں کے دورے کرتے ہوئے عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ ان تقاریر میں جہاں اپنی مدح سرائی ہوتی ہے وہیں دوسروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ان پر تنقیدیں کی جاتی ہیں اور عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔ عوام کو ہتھیلی میںجنت دکھائی جاتی ہے اور ان کے ذہنوںپر اثر انداز ہوتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔ اگر اقتدار مل جائے تو پھر اس کے مزید لوٹے جاتے ہیں اور پھر عوام سے کئے گئے وعدوں کو فراموش کردیا جاتا ہے ۔ شائد ہی کوئی حکومت ایسی رہی ہو جس نے اپنے تمام وعدے پورے کئے ہوں۔ کچھ حکومتیںضرور ایسی رہی ہیں جنہوںنے عوام سے کئے گئے اپنے وعدوںمیں کچھ کو بڑی حد تک پورا کیا ہے ۔ ملک میںاب دو ریاستوں جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں انتخابات چل رہے ہیں۔ انتخابی مہم زوروںپر ہے ۔ ایسے میمںسیاسی قائدین کے ان ریاستوں کے دورے بھی بڑھ گئے ہیں۔ ان دوروں میں عوامی جلسوں اور ریلیوںسے خطاب کرتے ہوئے سیاسی قائدین جس طرح کی تقاریر کر رہے ہیں وہ سیاست کے گرتے معیار کی عکاس بنتی جا رہی ہیں۔ ان تقاریر میںاقدار اور اخلاقیات کے معیار کا کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے ۔ ایسے الزامات ایک دوسرے پر عائد کئے جا رہے ہیں جن کو ثابت کرنا ممکن ہی نہیںرہتا ۔ سیاسی مخالفت کا معیار انتہائی پست کردیا گیا ہے ۔ بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ انتخابی مہم کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ سوشیل میڈیا کے ذریعہ نفرتوں کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ جھوٹی تشہیر اور دعوے کرتے ہوئے عوام کے ذہنوںکو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح جوقائدین دستوری اور ذمہ دار عہدوں پر فائز ہیں وہ بھی اپنی تقاریر کے معیار کا خیال رکھنے کو تیار نہیںہیں۔وہ بھی اس طرح کے الزامات عائد کر رہے ہیں کہ ان کی سنجیدگی پر خود سوال پیدا ہونے لگے ہیں اور جن دستوری عہدوں پر یہ لوگ فائز ہیں ان کا وقار مجروح ہونے لگا ہے ۔
ہندوستان ایک ایسی جمہوریت ہے جو ہمہ جماعتی نظام پر مبنی ہے ۔ کئی جماعتیں ملک کی سیاست میں سرگرم ہیں۔ انہیں مختلف ریاستوں میں اقتدار بھی حاصل ہے ۔ مرکز اور ملک کی کئی ریاستوں میں بی جے پی اقتدار پر فائز ہے تو کچھ ریاستوںمیں کانگریس کو عوام نے منتخب کیا ہے ۔ کچھ ریاستوںمیں علاقائی جماعتیں حکومت کر رہی ہیں۔ یہ ہمہ نظام ہماری جمہوریت کو مستحکم کرنے کا ذریعہ ہے ۔ ہر جماعت کے اپنے سیاسی نظریات ہیں۔ ایک دوسرے سے اختلاف رائے ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کے نظریات کی نفی کرتے ہوئے اپنے منصوبوںاور نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ یہ ہماری جمہوریت کا طرہ امتیاز ہے کہ ایک دوسرے سے مختلف نظریات رکھنے کے باوجود ملک کی سیاست میں ایک دوسرے سے تعاون بھی کیا جاتا ہے ۔ سرکاری کام کاج میں تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں اور عوام کی بہتری اور فلاح کیلئے کام کیا جاتا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا جا رہا ہے کہ سیاسی نظریاتی اختلاف اور مخالفت کو شخصی عناد اور دشمنی کی شکل دی جا رہی ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کے بیانات دئے جا رہے ہیں جو اخلاقیات اور اقدار سے عاری ہیں۔ یہ الزامات بالکل بے بنیاد ہوا کرتے ہیں اور ان میںکوئی سچائی نہیںہوتی ۔ کسی لیڈر کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے تو کسی کو دشمن کی زبان بولنے والا کہا جاتا ہے ۔ کسی کو اربن نکسلائیٹ تو کسی کو کچھ کہا جاتا ہے ۔ اس طرح کے الزامات عائد کرنے والے حالانکہ خود حکومت میں ہیں لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کئے بغیر محض سیاسی مخالفت کو ہی سب کچھ سمجھنے لگے ہیں۔ سیاسی مخالفت میںرواداری اور اقدار و اصول پسندی کو پوری طرح سے فراموش کردیا گیا ہے ۔
ہندوستان ہمیشہ سے ایک اخلاقیات اور اقدار کی پاسداری کرنے والا ملک رہا ہے ۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مختلف سیاسی نظریات رکھنے والے اور مختلف جماعتوںمیںکام کرنے والے قائدین ایک دوسرے کے بہترین دوست بھی رہے ہیں اور ایک دوسرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کیا جاتا تھا اور ملک کیلئے ان کی خدمات کا اعتراف کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی تھی ۔ تاہم یہ صورتحال اب پوری طرح سے بدل گئی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادنی سے سیاسی مفادات کیلئے ملک کی روایات اور اقدار کی دھجیاں اڑانے سے گریز کیا جائے اور مسائل پر مبنی سیاست کی جائے ۔ مسائل کی بنیاد پر اتفاق یا اختلاف کرتے ہوئے صحتمند ماحول کو یقینی بنایا جائے ۔