کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
کسی انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے
جھارکھنڈ میں دوسرے مرحلہ کی رائے دہی اور مہاراشٹرا میں ایک مرحلہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے انتخابی مہم آج شام اختتام کو پہونچی ۔ تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے انتہائی شدت کے ساتھ یہ مہم چلائی اور رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ۔ ووٹرس کو رجھانے کیلئے کوئی کسر باقی نہیںر کھی گئی اورا یک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی کی گئیں۔ جھارکھنڈ میں جے ایم ایم ‘ کانگریس ‘ آر جے ڈی اور بی جے پی کے درمیان یہ سلسلہ جاری رہا تو مہاراشٹرا میںمہاوکاس اگھاڑی اور مہایوتی اتحاد کے درمیان سخت مقابلہ دیکھا گیا ہے ۔ تاہم اس انتخابی مہم کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس مہم کے دوران بی جے پی کی جانب سے چاہے جھارکھنڈ ہو یا پھر مہاراشٹرا ہو دونوںہ یر یاستوں میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے معاملے میںکوئی کسر باقی نہیںر کھی گئی ۔ ہر موقع پر بنیادی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دی گئی اور سماج کے مختلف طبقات کے درمیان نفرت اور دوریوں کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی تھی ۔ ایسے مسائل کو موضوع بنایا گیا جن کا ریاستی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں تھا اور محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے بنیادی مسائل کو نظر انداز کردیا گیا ۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے لگاتار اقلیتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ جھارکھنڈ میں کہا گیا کہ ہیمنت سورین کی حکومت مسلمانوں کو تحفظات دینا چاہتی ہے اور کانگریس او بی سی طبقات کے تحفظات چھین لینے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ اس طرح مرکزی حکومت میں رہنے کے باوجود بی جے پی نے سماج کے اہم طبقات میں دوریاں اور نفرت پھیلانے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے علاوہ بٹیں گے تو کٹیں گے جیسا انتہائی اشتعال انگیز نعرہ دیا گیا ۔ بی جے پی کے اس نعرہ سے بی جے پی کی حلیف جماعتیں اور اس کے اپنے ہی کچھ قائدین متفق نہیں تھے اور اس کا انہوں نے کھل کرا ظہار بھی کیا تھا ۔ اس طرح کے نعروں کے خلاف الیکشن کمیشن سے شکایت بھی درج کروائی گئی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر کسی طرح کی کارروائی کرنا ضروری ہی نہیں سمجھا ۔
کانگریس اور اس کے قائدین کی جانب سے لگاتار عوامی مسائل کو موضوع بنایا گیا ۔ یہ واضح کیا گیا کہ سماج میں مختلف ذاتوں اور قبائل سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی کا پتہ چلا کر ترقی کے ثمرات میں انہیںحصہ داری دی جائے گی ۔ بی جے پی اس مسئلہ سے چراغ پا ہے اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کی بجائے اس نے پسماندہ طبقات کو ورغلانے اور مشتعل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اقلیتوں سے دوسرے طبقات کو خوفزدہ کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ بی جے پی نے کام کیا ہے ۔ پارٹی کے ذمہ دار قائدین نے بھی اسی روش کو اختیار کیا اور عوامی مسائل پر کسی طرح کا اظہار خیال کرنے سے گریز ہی کیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی اپنے دستوری عہدوں کا خیال کئے بغیر ہی اختلافات کو ہوا دینے پر ہی توجہ مرکوز کی تھی ۔ دوسرے قائدین کی جانب سے تو اس سے زیادہ اشتعال انگیزی کی گئی ۔ چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ کی جانب سے ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی اور انہوں نے ہی بٹیں گے تو کٹیں گے کا نعرہ دیا تھا ۔ بی جے پی کی یہ ہمیشہ کی حکمت عملی رہی ہے اور انتخابات کے موسم میں متعلقہ ریاستوں میں ماحول کو پراگندہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا بی جے پی کا وطیرہ رہا ہے ۔ عوامی مسائل اور اپنی حکومت کی کارکردگی یا مستقبل کے منصوبوں اور پروگراموں کو پیش کرنا بی جے پی کا طریقہ کار رہا ہی نہیں ہے اور ہمیشہ منفی ذہنیت کے ساتھ ہی کام کرنے کو ترجیح دی گئی ہے ۔
تقریبا ایک ماہ سے جاری انتخابی مہم کی گہما گہمی اب اختتام کو پہونچی ہے۔ گرد جمنے والی ہے اور عوام کو سوچنے سمجھنے کیلئے وقت دستیاب ہے ۔ عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ کس نے منفی ذہنیت کے ساتھ کام کیا ہے اور اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے ۔ کس نے ان کے مسائل کو سمجھا ہے اور انہیں حل کرنے کی سمت کوئی منصوبہ پیش کیا ہے ۔ جذباتیت اور مذہبی اشتعال کا شکار ہوئے بغیر جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا کے ووٹرس کو سیاسی فہم و فراست کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔اپنے بہتر مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی طرح کے اشتعال کا شکار ہوئے بغیر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔