اور اب مسئلہ روسی تیل کا

   

ہم کو تو خیر خواہ نے مارا
دل ناداں کو چاہ نے مارا
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے لگاتار اس طرح کے بیانات دئے جا رہے ہیں جن سے ہندوستان کے معلنہ موقف کی نفی ہوتی ہے ۔ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ٹرمپ کی جانب سے ایسے دعوے کئے گئے ہیں جو ہندوستان کے موقف سے میل نہیں کھاتے بلکہ ہندوستان کے موقف کی نفی کی جاتی ہے ۔ ہندوستان ٹرمپ کے دعووں کی تردید اس انداز سے کرتا ہے کہ کھل کر کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ ٹرمپ نے سب سے پہلے یہ دعوی کیا تھا کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ رکوائی تھی ۔ ہندوستان کی جحانب سے آپریشن سندور کیا جا رہا تھا اور ٹرمپ نے باضابطہ طور پر دونوںملکوں کے مابین جنگ بندی کا اعلان کردیا تھا جس کی بعد میں دونوں ملکوں کی جانب سے توثیق کی گئی تھی ۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ نے جنگ رکوانے کا دعوی محض ایک بار کیا ہو۔ انہوں نے ایک سے زائدمرتبہ یہ دعوی کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کوانہوں نے رکوایا تھا ۔ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ دونوںملکوںپر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ ان کے ساتھ تجارت روک دی جائے گی اور ان کی اشیاء پر دو سو فیصد تک شرحیں عائد کردی جائیں گی جس کے بعد دونوںملکوں نے جنگ بندی سے اتفاق کیا تھا ۔ جتنی بار ٹرمپ نے یہ دعوی کیا تھا اتنی ہی مرتبہ ہندوستان کی جانب سے اس کی تردید کی گئی تھی تاہم کھل کر ٹرمپ کے اعلانات کو مسترد نہیں کیا گیا تھا ۔ ٹرمپ نے ہندوستان کی جانب سے روسی تیل کی خرید کو بھی مسئلہ بناکر پیش کیا تھا اور اسی کو بہانہ بناتے ہوئے ہندوستانی مصنوعات پر شرحیں عائد کردی گئی تھیں۔ ان شرحوں کے نتیجہ میں ہندوستانی معیشت پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ حالانکہ یہ اندیشوں سے کم اثرات ہیں لیکن ہو ضرور رہے ہیں۔ اسی روسی تیل کی خریدی کے مسئلہ پر اب ٹرمپ نے بڑا دعوی کیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں روس سے تیل خریدی کا سلسلہ روک دینے کا تیقن دیا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم ہندوستان نریندر مودی کی ستائش کرتے ہوئے دعوی کیا کہ انہوں نے روس کا تیل خریدنے کا سلسلہ روکنے سے اتفاق کرلیا ہے تاہم اس کیلئے کچھ وقت ضرور درکار ہوگا ۔
ہندوستان نے حسب روایت ٹرمپ کے اس دعوی پر بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے ۔ ہندوستان کا جو رد عمل تھا وہ انتہائی مبہم اور غیر واضح دکھائی دیا ہے ۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ ہم توانائی کی ضروریات کے مسئلہ میں اپنے گاہکوں اور صارفین کی سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں اور یہی ہندوستان کی پالیسی ہے ۔ جہاں تک عوام اور گاہکوں کی سہولت کا سوال ہے تو ایسی ہی پالیسی دنیا کا ہر ملک اختیار کرتا ہے ۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے دعوی پر یہ رد عمل ظاہر کیا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے خود یہ دعوی کیا ہے اور انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کا نام لے کر دعوی کیا ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خود وزیر اعظم اس معاملے میں آگے آئیں اور ہندوستان کے موقف کا باضابطہ اعلان کریں۔ جو ردعمل ظاہر کیا گیا ہے وہ انتہائی غیر واضح ہے اور اس میں نہ ٹرمپ کے دعوی کی توثیق ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی نفی ہوتی ہے ۔ یہ معاملہ دونوں ہی ملکوں کیلئے اہمیت کا حامل ہے ۔ ہندوستان نے اسی روسی تیل کی وجہ سے شرحیں کو برداشت کرلینے کا فیصلہ کیا تھا اور امریکہ اسی تیل کی وجہ سے شرحیں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اب صورتحال اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے تو ہندوستان کو اس مسئلہ پر ایک واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کھل کر واضح کیا جانا چاہئے کہ ٹرمپ نے جو دعوی کیا ہے وہ درست ہے یا نہیں ۔ مبہم انداز اور غیر واضح بیان سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں اور ان سوالات کے جواب دینے کی ضرورت ہے ۔
ٹرمپ کا جہاں تک سوال ہے تو وہ لگاتار ایسے بیانات دے رہے ہیں اور ایسے دعوے کر رہے ہیں جو ہندوستان کے موقف کی نفی کرتے ہیں ۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی آزادانہ ہے اور وہ تجارتی پارٹنرس کا انتخاب کرنے میں پوری طرح سے آزاد ہے ۔ امریکہ ہو یا کوئی اور ملک ہو اسے ہندوستان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ۔ ہندوستان نے اس تعلق سے جو کچھ بھی فیصلہ کیا ہے اس کا واضح طور پر اظہار کرنے کی ضرورت ہے ۔ مبہم انداز سے کام نہیں چلایا جاسکتا ۔ دو ٹوک انداز میں بیان دیتے ہوئے اپنے موقف کو سارے ملک اور ملک کے عوام پر واضح کئے جانے کی ضرورت ہے ۔