آدتیہ ناتھ کا لب و لہجہ

   

Ferty9 Clinic

اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ اپنے اشتعال انگیز بیانات اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کیلئے جانے جاتے ہیں۔ جس وقت وہ گورکھپور کے رکن پارلیمنٹ تھے اس وقت سے ہی انہوں نے اپنی اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کو وہ اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ملک کے دستور اور قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ صرف فرقہ پرستی کے ماحول کو ہی آگے بڑھانے میں یقین رکھتے ہیں۔ جس وقت بی جے پی نے آدتیہ ناتھ کو اترپردیش کے چیف منسٹر کی حیثیت سے منتخب کیا اس وقت کچھ گوشوں کی جانب سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ ایک دستوری اور ذمہ دار عہدہ پر فائز رہتے ہوئے شائد اپنی زبان کو لگام دینے کی کوشش کرینگے ۔ ان کی اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ رک جائے گا اور وہ ایک ذمہ دار چیف منسٹر کی حیثیت سے کام کرنے کو ترجیح دینگے ۔ تاہم یہ ساری توقعات انتہائی مضحکہ خیز ثابت ہوئیں اور آدتیہ ناتھ کی اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں اب دھمکیاں بھی شامل ہوگئی ہیں اور اشتعال انگیزیوں میں اضافہ بھی ہوگیا ہے ۔ انہوں نے ایک موقع پر عید نہ منانے کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کی دلآزاری کرنے کی کوشش کی تھی ۔ حد تو یہ ہے کہ انہیں اپنے اس طرح کے بیانات پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی اپنی پارٹی کی جانب سے ان کی کسی طرح کی سرزنش کی جاتی ہے ۔ ایک طرح سے بی جے پی اوراس کی اعلی قیادت خود چاہتے ہیں کہ آدتیہ ناتھ اپنی زبان درازیوں کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ انہیں ایک کٹر ہندو فرقہ پرست کے طور پر سارے ملک میں پیش کرتے ہوئے ووٹ بٹورے جاسکیں۔ اب بی جے پی بہار اسمبلی انتخابات میں مشکل صورتحال سے نمٹنے ایک بار پھر انہیں استعمال کر رہی ہے ۔ آدتیہ ناتھ نے اب ایک بار پھر زبان کھولی ہے اور انہوں نے مسلمانوں کو عملا موت کے گھاٹ اتاردینے کی دھمکی دی ہے ۔ انہوں نے لو جہاد کے خلاف سخت قانون بنانے کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ اگر لو جہاد کا سلسلہ نہیں رکا تو نوجوانوں کا آخری سفر شروع ہوجائے گا ۔
سماجی نوعیت کے کسی بھی مسئلہ پر کوئی موقف اختیار کرنا اور اگر کوئی مسئلہ سنگین ہے تو اس سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کرنا حکومت کا کام ہے اور اس کی ذمہ داری ہے لیکن جس طرح کی زبان آدتیہ ناتھ استعمال کر رہے ہیں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں نہ قانون سازی سے مطلب ہے اور نہ جرائم کی روک تھام سے ۔ وہ صرف ہر مسئلہ پر سیاست کرنا اور اشتعال انگیزی کرنا چاہتے ہیں۔ آدتیہ ناتھ اگر قانون بنانا ہی چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اپنی ریاست میں بڑھتی ہوئی عصمت ریزی اور قتل و غارت گری کے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون بنائیں۔ عصمت ریزی کے ملزمین کے ’ رام نا تھ ۔ ست ہے ‘ کو یقینی بنائیں۔ اس کے برخلاف اترپردیش میں نوجوان لڑکیوں کی عصمتوں کو داغدار کرنے اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو سیاسی تحفظ حاصل ہوتا ہے ۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے متاثرہ لڑکیوں کی کردار کشی کی جاتی ہے ۔ ان کے خاندانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے ۔ جو عہدیدار بھی اگر کسی ملزم کے خلاف کارروائی کرنے کی جرائت کرتے ہیں تو ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی ہوتی ہے ۔ ہاتھرس میں ایک نوجوان دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل ہوتا ہے تو ملزمین کو بچانے کیلئے متاثرہ لڑکی کی رات کے اندھیرے میں والدین کی مرضی کے خلاف آخری رسومات ادا کردی جاتی ہیں۔ ملزمین کے خلاف کارروائی سے ممکنہ حد تک حکام گریز کرتے ہیں۔
آدتیہ ناتھ کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک ریاست کے چیف منسٹر ہیں۔ یہ کوئی ان کا مٹھ یا ان کی تنظیم نہیں ہے جس میں وہ اپنی من مانی چلا سکیں۔ وہ ایک دستوری عہدہ پر فائز ہیں ۔ وہ بھی ریاست کے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور قانون کے تابع بھی ہیں۔ انہیں کسی گلی یا نکڑ کے لیڈر کی زبان بولنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ کسی ایک مسئلہ پر ہی نہیں بلکہ تمام اہم اور سلگتے ہوئے مسائل پر انہیں توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ریاست میں لڑکیوں اور خواتین کی عصمتوں کا تحفظ کرنا ان کی ذمہ داری ہے ۔ ملزمین کو کیفر کردار تک پہونچانا ان کی ذمہ داری ہے اور لا قانونیت کو ختم کرنا ان کی ذمہ داری ہے ۔ انہیں اپنی دستوری ذمہ داریوں کی تکمیل پر توجہ کرتے ہوئے اپنے لب و لہجہ کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔