ایران کے سپریم رہنماء آیت اللہ علی خامنہ ای نے اعلان کردیا ہے کہ ایران اسرائیل اور امریکہ کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے گا ۔ ایران حالت جنگ میں ہے اور فوجی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کل ہی ایران کو انتباہ دیا تھا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے ۔ یہ انتباہ بھی دیا گیا تھا کہ اگر ایران ایسا نہیں کرتا ہے تو امریکہ کو پتہ ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر کہاں ہیں اور ان کا حشر بھی عراق کے سابق صدر صدام حسین جیسا ہوسکتا ہے ۔ جس لب و لہجہ میں صدر ٹرمپ نے بات کی تھی اسی لب و لہجہ میں جواب دیتے ہوئے آیت اللہ علی خامنہ ای نے واضح کردیا ہے کہ ایران ہتھیار نہیں ڈالے گا ۔ وہ حالت جنگ میں ہے اور دشمن کا مقابلہ کیا جائے گا ۔ اسرائیل جیسے جارحیت پسند اور امریکہ جیسی عالمی طاقت کے سامنے ایران جس طرح سے سینہ سپر ہوا ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور عالمی طاقتوں کی دھمکیوں اور انتباہ کو مسترد کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے سے انکار بھی کردیا گیا ہے ۔ یہ ایران کے عزم و حوصلے کی مثال ہے ۔ جس طرح سے ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کو دھمکانے کی کوشش کی تھی وہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ٹرمپ کو امریکی صدر کی حیثیت میں اس لب و لہجہ میں بات کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا جس کو انہوں نے اختیار کیا ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ ایسا لگتا ہے کہ ایران کو جوہری معاہدہ کیلئے مجبور کرنے کیلئے اسرائیل کا سہارا لے رہے ہیں اور ایران کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ اس کی شرائط پر جوہری معاہدہ کرلے ۔ ایران نے جوہری معاہدہ کیلئے مذاکرات پر رضامندی کا اظہار بھی کردیا تھا تاہم اس نے تحدیدات کی برخواستگی کی گنجائش معاہدہ میں فراہم کرنے پر زور دیا تھا جو اس کا حق ہے لیکن امریکہ کسی بات کو سننے یا تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور وہ اپنی ہی شرائط پر دنیا کو چلانا چاہتا ہے جسے ایران نے مسترد کرتے ہوئے ایک طرح سے دوسروں کیلئے مثال پیش کی ہے ۔ عالمی نظام میں اس طرح کے لب و لہجہ میں معاملات طئے کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ ٹرمپ نے یہی لب و لہجہ یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ بھی اختیار کیا تھا ۔
امریکہ ہو یا پھر دوسری عالمی طاقتیں ہوں وہ جس طرح سے ایران کو دھمکانا چاہتی ہیں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہی ہیں وہ افسوسناک پہلو ہے ۔ عالمی طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاملہ فہمی سے کام لیں۔ اسرائیل کو جارحانہ عزائم سے باز رکھا جائے ۔ ایران پر بلا اشتعال مسلط کی گئی جنگ کو روکا جائے ۔ فوجی کارروائیوں اور کشیدگی کو کم کرنے کیلئے بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ امریکہ کے ساتھ روس اور چین جیسے ممالک کو بھی بات چیت کا حصہ بنایا جائے ۔ علاقہ کے دیگر ممالک کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کو بھی بات چیت کا حصہ بنایا جائے اور جو کشیدگی اور فوجی تصادم مشرق وسطی میںشروع ہوا ہے اسے روکا جائے ۔ اب تو یہ بات بھی واضح ہونے لگی ہے کہ ایران نیوکلئیر ہتھیار بنانے کے قریب بھی نہیں پہونچا ہے ۔ ایسے میں اسرائیل نے جو الزامات عائد کئے ہیں وہ بے بنیاد ثابت ہورہے ہیں ۔ امریکہ اور اسرائیل کا جہاں تک تعلق ہے وہ کسی بھی بات کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور اسرائیل اپنی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے میں لگا ہوا ہے ۔ عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایران پر جو بلا اشتعال جنگ مسلط کی گئی ہے اسے روکا جائے ۔ اسرائیل کو اس کے جارحانہ عزائم کی تکمیل سے روکا جائے اور مشرق وسطی میں امن و امان کو بحال کیا جائے ۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئے کہ آج کی دنیا جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی اور جنگ کے نقصانات کا اثر ساری دنیا پر مرتب ہوسکتا ہے ۔
اسرائیل جہاں ایران کو نشانہ بنارہا ہے وہیں ایران کی جانب سے بھی موثر جوابی کارروائی ہو رہی ہے ۔ ایران اس پر مسلط کی گئی جنگ کا جواب دے رہا ہے ۔ یہ سلسلہ زیادہ طوالت اختیار کرتا ہے تو اس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایران نے واضح کردیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ ایسے میں دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اجارہ داری کے ذریعہ یا طاقت کے زور پر نہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جنگ کو روکنے کی کوشش کرے ۔ فوجی کارروائیاں دونوں جانب سے روکنے پر توجہ مرکوز کرے اور حالات کو معمول پر لانے فوری کوششوں کا آغاز کیا جائے ۔