ہندوستان کی 132سال پرانی یونیورسٹی جس نے ایک ملک کو ایک صدر جمہوریہ‘ تین وزرائے اعظم ‘ اور آزادی کی تحریک کی ایک اہم شخصیت کے علاوہ کئی گواہر فراہم کئے ہیں اس کو اپنی شناخت بچانے کے بحران سے گذر نا پڑرہا ہے۔
یونیورسٹی آف الہ آباد کے نام کی تبدیلی کے لئے ایک قدم اٹھایاجارہا ہے ‘ جو’’ یونیورسٹی آف ایسٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہے اس کو یونیورسٹی آف پریاگ راج کے نام پر ضلع کے نام کی تبدیلی کی وجہہ سے بدلنے کاکام کیاجارہا ہے‘
اسلامی سے ہندو ناموں پر بدلاؤ کے اس کھیل میں اس مرتبہ یونیورسٹی نشانے پر ہے۔بی جے پی کی اقتدار والے اعلی تعلیم کے محکمے نے ایچ آر ڈی منسٹری کوپچھلے سال 20ڈسمبر کے روز ایک چھٹی روانہ کی تھا اور زوردیا کہ 132سالہ ادارے کے نام میں تبدیلی کے لئے یونیورسٹی آف الہ آبا د ایکٹ میں ترمیم کی جائے۔
ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے دو عہدیداروں نے بتایا کہ منسٹر ی نے تجویز یونیورسٹی کو روانہ کردی مگر اس پر بات تک کوئی ردعمل نہیں آیاہے ۔
یونیورسٹی سے وابستہ کم سے کم ایک تعلیم داں نے اس منصوبے کو قابل افسوس قراردیا۔ پروفیسر ہیرامپ چترویدی جو وسطی دور اور ماڈرن ہسٹری کے ماہر مانے جاتے ہیں نے تجویز کو مضحکہ خیز قراردی۔
یونیورسٹی کے طلبہ میں سابق صدر جمہوریہ شنکر دیال شرما‘ اور سابق وزیراعظم وی پی سنگھ‘ چندر شیکھر اور گلزاری لال نندا شامل ہیں۔
سابق چیف منسٹر گویند بلب پنت جنھوں نے جنگ آزادی میں بھی کلیدی رول ادا کیاتھا بعد میں جنھیں بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا گیا نے بھی اسی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔
شاعر ہروانش رائے بچن بھی یہاں کے طالب علم تھے۔کسی مقام کانام تبدیل ہونے کے باوجود بھی ایچ آر ڈی منسٹری نے ایک یونیورسٹی یا ایک ائی ائی ٹی کے نام میں تبدیلی نہیں لائی ہے۔
جب بمبئی کا نام تبدیل ہوکر ممبئی ہوگیا اور مدراس کا نام چینائی میں تبدیل ہوا ‘ مذکورہ ائی ائی ٹی بمبئی اور ائی ائی ٹی مدراس کے نام تبدیل نہیں ہوئے۔ پانڈیچری کا نام بدل کر پوڈیچری کردیاگیامگر یونیورسٹی پانڈیچری ہی رہی۔ یونیورسٹی کا یہ تجویز اکاڈیمک اور ایکزیکیٹو محکمے کے پاس رکھی گئی ہے