ایمرجنسی کی یاد اور جمہوری ادارے

   

دل ان کا تھا جو اپنے طرفدار کی طرف
نظریں نہ اٹھ سکیں رخِ بیمار کی طرف
ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ تھا ۔ ایمرجنسی 1975 میں لاگو کی گئی تھی جسے اب نصف صدی کا وقت گذرچکا ہے ۔ ہندوستان اس سے بہت آگے آگیا ہے اور ملک نے زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں ترقی کی ہے ۔ ایمرجنسی کے پچاس برس کی تکمیل پر وزیر اعظم نریند مودی نے کل اظہار خیال کتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران ملک کی جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ ملک کے جمہوری اداروں کو پامال کیا گیا تھا ۔ یہ حقیقت ہے کہ آج پچاس برس گذرنے کے باوجود بھی ایمرجنسی کے باب کو ملک میں فراموش نہیں کیا جاسکا ہے ۔ یہ ایک غلط فیصلہ تھا ۔ تاہم جہاں تک ملک کے موجودہ حالات کی بات ہے تو آج ملک میں جمہوری اداروں کو جس طرح سے کچلا جا رہا ہے اور ان کی اہمیت کو ختم کیا جا رہا ہے اور ان کو سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے وہ بھی زیادہ قابل مذمت ہے ۔ آج کئی گوشوں کا تاثر یہ ہے کہ ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی لاگو ہوگئی ہے ۔ حکومت کے خلاف محض اظہار خیال کرنے یا پھر حکومت کی رائے سے اتفاق نہ کرنے پر ہی جیلوں کو بھیجا جا رہا ہے ۔ مقدمات درج کرتے ہوئے کیرئیر برباد کئے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ کئی حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو جیلوں میں بند کرتے ہوئے کئی برسوں تک ضمانت تک فراہم کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ ملک کے کئی ادارے ایسے ہیں جو سسک رہے ہیں۔ ان کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں مل رہی ہے ۔ آج ملک کے کئی ادرے ایسے ہیں جن پر حکومت کا راست کنٹرول ہوگیا ہے اور یہ ادارے سیاسی اشاروں پر کام کرنے کیلئے مجبور کردئے گئے ہیں۔ حکومت کے مخالفین ہی ان اداروں کا نشانہ بن گئے ہیں اور حکومت کی مرضی کے مطابق اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ملک میں عوام کو ان کے حقوق فراہم نہیں کئے جا رہے ہیں اور دستور میں جو حقوق فراہم کئے گئے ہیں انہیں بھی سلب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ملک کی اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششوں کو بھی تیز کردیا گیا ہے ۔
ملک کے عوام میں یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ آج ملک میں شائد ہی کوئی ادارہ ایسا رہ گیا ہو جو سیاسی اشاروں پر کام نہیں کر رہا ہو۔ چاہے وہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ہو ‘ سی بی آئی ہو ‘ انکم ٹیکس ہو یا پھر کچھ اور دوسرے ادارے ہوں۔ آج اپوزیشن جماعتاوں کو تو ملک کے الیکشن کمیشن کے کام کاج پر تک شوکش پیدا ہوگئے ہیں ۔ عوام کی ایک بڑی تعداد اپوزیشن کے خیال سے اتفاق کرتی ہے ۔ الیکشن کمیشن پر حکومت کے اشاروں پر کام کرنے اور حکومت کی مدد کرنے کے الزامات عائد ہو رہے ہیں۔ الیکشن سے متعلق قوانین کو بھی حکومت کی سہولت کیلئے تیزی کے ساتھ تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ قدیم مروجہ طریقہ کار کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ انتخابی عمل میں بے قاعدگیوں اور بد عنوانیوں کے الزامات پر کوئی سنوائی نہیں ہو رہی ہے اور محض اپنی بات کہتے ہوئے جو شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں انہیں دور کرنے کی سنجیدگی سے کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے ۔ ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ۔ ملک سے اپوزیشن کا صفایا کرنے کی مہم شروع ہوگئی ہے ۔ کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیتے ہوئے در اصل اپوزیشن مکت بھارت کی سمت پیشرفت کی جا رہی ہے اور یہ رجحان اور یہ ذہنیت ملک کی جمہوریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ ملک کی جمہوریت کو کھوکھلا کرنے والے کام پوری شدت کے ساتھ انجام دئے جا رہے ہیں اور جمہوریت کو مستحکم کرنے اور اسے مضبوط بنانے کیلئے جو تجاویز پیش کی جا رہی ہیں انہیں قبول نہیں کیا جا رہا ہے ۔
صرف سیاسی مقد براری کیلئے ایمرجنسی کا تذکرہ کرنا یا جمہوریت کی دہائی دینا درست نہیں ہے ۔ آج بھی ملک میں جو حالات ہیں وہ قابل توجہ ہیں۔ آج بھی ملک میں جمہوریت کو نقصان پہونچانے جیسی حرکتیں ہو رہی ہیں۔ آج بھی عوم کے حقوق کو سلب کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق چھیننے کے اعلان ہو رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ بھی ایمرجنسی سے مختلف نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے ۔ ماضی کی غلطیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے حال کو بہتر بنایا جانا چاہئے ۔صرف غلطیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں مناسب نہیں کہی جاسکتیں۔