این پی آر ۔ ٹکر کا مقابلہ

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے اپنے سالانہ بجٹ میں 1.82 لاکھ کروڑ روپئے کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں جس میں سے زیادہ تر حصہ ریاست کے غریب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا ۔ مرکز نے فنڈس کی وصولی میں کمی اور مالیہ کے حصول میں دشواریوں کے باوجود فلاحی اسکیمات کو روبہ عمل لانے کا عزم قابل ستائش ہے کچھ نہ ہونے اور کچھ نہ کرنے سے تو اچھا ہے کہ کچھ نہ کچھ وعدے کیے جائیں ۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے سابق بجٹ میں ریاست کے بے روزگار نوجوانوں کو بیروزگاری بھتہ دینے کا اعلان کیا تھا ۔ اس مرتبہ بجٹ میں اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا اور یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ گذشتہ سال بیروزگاری بھتہ کے لیے جو فنڈ مختص کیا گیا تھا اس کو کتنا خرچ کیا گیا اور کتنے بیروزگاروں کو بھتہ دیا گیا ۔ چیف منسٹر کو وعدوں کی سیاست پر ملکہ حاصل ہے اور وہ عوام کی نبض سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے ان کے عزائم کا بھی عوام کے خواہشات کے مطابق ہی اظہار ہوتا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ معاشی کساد بازاری کے باوجود ریاست تلنگانہ کے عوام کی سالانہ فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے ۔ عوام کی قوت خرید بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ چیف منسٹر کی پالیسیوں کی وجہ سے تلنگانہ کے عوام کی آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اگرچیکہ یہ اضافہ کا ذکر صرف بجٹ کے اعداد و شمار اور کاغذی رپورٹ تک ہی اچھا لگتا ہے اسی طرح شہر حیدرآباد کی ترقی کے لیے تلنگانہ حکومت نے سالانہ 10 ہزار کروڑ روپئے مختص کئے ہیں ۔ اسی طرح آئندہ پانچ سال کے دوران 50 ہزار کروڑ روپئے شہر حیدرآباد کے انفراسٹرکچر کو فروغ دینے پر خرچ کیے جائیں گے ۔ اب تک ایسے کئی اعلانات ہوچکے ہیں لیکن حیدرآباد کی ترقی عوام کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ موسیٰ ندی کی صفائی کا کام بھی عوام دیکھ رہے ہیں ۔ اس ندی کے نام پر برسوں سے حکومتوں نے روپیہ میں اُلٹ پھیر کیا ہے ۔ بجٹ میں ذکر کرنے کے باوجود موسیٰ ندی کو خوبصورت بنانے کا کام صرف سطحی دکھائی دیتا ہے ۔ موسیٰ ندی کے دونوں کناروں پر ناجائز قبضے ہورہے ہیں ۔ حکام ان قبضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے رشوت کا راستہ اپنا رہے ہیں ۔ ماضی کی حکومتوں کی تاریخ گواہ ہے کہ عوام کے مسائل سے لا علمی اور ان مسائل کو حل کرنے میں عدم دلچسپی و غیر ضروری تاخیر پر حکومت کے زوال کا بنیادی سبب رہا ہے ۔ سابق کی آندھرائی تسلط والی حکومتوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا تھا وہی طرز عمل کے سی آر کی حکومت کا بھی ہو تو پھر تلنگانہ کے حصول کا مقصد فوت ہوجائے گا ۔ چیف منسٹر کو اپنی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ پرگتی بھون میں اجلاس ہوتے ہیں لیکن یہ اجلاس ادھورے کاموں کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں ۔ تلنگانہ اسمبلی کے بجٹ سیشن میں بھی انہوں نے حقیقت پسندی کا جائزہ لینے کے بجائے صرف اسکیمات کے اعلانات کو ہی اہمیت دی ۔ اس سے عوام کو راحت پہونچانے کا جذبہ کاغذ کی ہی زینت بن کر رہ جائے گا ۔ بجٹ 2020-21 پر عام بحث تو جاری رہے گی

لیکن مالیاتی نشانہ کو پہونچنے کے لیے کیا معقول انتظامات کئے جارہے ہیں یہ دیکھنا ضروری ہے ۔ شبہ یہ کیا جارہا ہے کہ آیا یہ حکومت اپنے مالیاتی نشانہ کو حاصل کرسکے گی ۔ اس سال کے اواخر یا بعد میں مالیاتی نشانہ سے پورا نہیں ہوسکا تو وہ اسکیمات کو روبہ عمل نہیں لاسکے گی ۔ حکومت نے عوامی بہبودی اسکیمات پر بھاری مصارف کے لیے فنڈس بنائے ہیں لیکن یہ فنڈ کہاں سے آئے گا یہ واضح نہیں کیا ۔ سمجھا جارہا ہے کہ حکومت ریاستی اراضیات کو فروخت کر کے 14515 کروڑ روپئے جمع کرے گی ۔ یہ رقم اس وقت آئے گی جب زمینات کی فروخت مارکٹ کے رجحان کے مطابق ہو ، اس وقت سارا ملک معاشی ابتری کا شکار ہے ۔ کورونا وائرس سے لوگ پریشان ہیں تو جاریہ سال اتنی رقم حاصل کرنے کے لیے زمینات کی فروخت میں کامیابی نہیں ملے گی ۔ حکومت نے راجیو سوگرہا امکنہ جات کو فروخت کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ جب کہ راجیو سوگرہا اور تلنگانہ ہاوزنگ بورڈ کی اراضیات حیدرآباد کے مضافات میں واقع ہیں جہاں قیمتیں کم ہیں ۔ آوٹر رنگ روڈ کی اطراف کی اراضیات سے البتہ حکومت کو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے ۔ مالیہ کی کمی کا شکار ٹی آر ایس حکومت آئندہ چار سال تک ریاستی عوام کو صرف خواب دکھاتے رہے گی تو اس کے لیے سیاسی مسائل پیدا ہوں گے کیوں کہ ریاستی بی جے پی صدر کی حیثیث سے کریم نگر کے ایم پی بنڈی سنجے کو مقرر کیا گیا ہے ۔ بی جے پی اپنے قدم مضبوط بنانے کی کوشش کرے گی اور ٹی آر ایس کو کمزور کرسکتی ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر کو چاہئے کہ وہ ریاست کے نوجوانوں کو پارٹی کے قریب بنائے رکھیں اور ان کے لیے بیروزگاری بھتہ کو ایمانداری سے وعدے کے مطابق جاری کریں ۔ انہوں نے بیروزگار نوجوانوں کو ماہانہ 3016 روپئے الاونس دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن سرکاری خزانہ کی حالت نازک ہونے سے یہ بھتہ جاری نہیں کیا جاسکا ۔ اس سال کے بجٹ میں تو اس بھتہ کے تعلق سے کچھ ذکر ہی نہیں کیا گیا ۔ 2014 میں کے سی آر نے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہوا ۔ نہ ہی خالی جائیدادوں پر تقررات عمل میں لائے گئے ۔ کے سی آر کو یہ ہنر اچھی طرح آتا ہے کہ وقت آنے پر عوام خاص کر نوجوانوں اور سرکاری ملازمین کو کس طرح خوش کیا جائے ۔ آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال اس قدر شدت اختیار کر گئی تھی کہ آخر میں یہ ہڑتال دم توڑ چکی تھی ۔ اچانک کے سی آر نے آر ٹی سی ملازمین کے مسیحا بن کر انہیں بحال کرایا ۔ اب انہوں نے ہڑتال کے دنوں میں بھی تنخواہیں دینے کا اعلان کیا ۔ یہ سیاسی حربے ہیں اسی وجہ سے وہ عوام سے ووٹ لینے کے وقت ووٹ حاصل کرنے کا ہنر رکھتے ہیں مگر اب بی جے پی اور این آر سی ، سی اے اے ، این پی آر کے مسئلہ سے وہ کس طرح نمٹیں گے یہ ان کے لیے کڑی آزمائش ہوگی ۔ سردست ریاست میں این پی آر کا مسئلہ ہے ۔ یہ مسئلہ کے سی آر کا سیاسی قد بڑھا بھی سکتا ہے ، گھٹا بھی سکتا ہے ۔ یہ بڑا گمبھیر مسئلہ ہے ۔ ویسے تو کے سی آر کو اپنے منہ بولے دوستوں سے کافی امیدیں ہیں ۔ مقامی جماعت کے قائدین تو کے سی آر کے یار غار ہیں ۔ برے وقت میں یہ قائدین کے سی آر کو این پی آر کی کڑی آزمائش سے نکال لیں گے ۔ کے سی آر کو اپنے منہ بولے دوستوں کی ٹولی پر کافی بھروسہ بھی ہے ۔ ظاہر اس ٹولی کو اپنے کروڑہا روپئے کے اثاثے بچانے کے لیے مرکز سے لے کر ریاستی حکومتوں کے اشاروں پر کام کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ اس ٹولی کے حامیوں کو تو بس اشارہ ہی کافی ہے وہ آج این پی آر کی مخالفت کررہے ہیں کل ان کا لیڈر کہہ دے کہ این پی آر کی خانہ پری کرلو تو پھر خاموشی سے بلکہ دھڑا دھڑا این پی آر کی خانہ پری کرلیں گے ۔ اس کے بعد کیا ہوگا بس ڈیٹنشن سنٹر کی تیاری کرنی ہوگی ۔ ان کے لیڈروں کو ان کی وفاداری کا انعام ملے گا اور ان کے اثاثے محفوظ رہیں گے اور عام شہری کا غذ نہیں دکھائیں گے کی رٹ بھول کر کاغذ بنائیں گے ، کاغذ تلاش کرنے میں ارد گرد کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے ۔ آپ یقین کرلیں یہ بہت بڑے چارہ گر لوگ ہیں جن کی ساری سیاسی زندگی چارہ گری کی مثالوں سے بھری ہے لیکن ان کے ووٹر ہی چارہ گر نہیں بن سکے ۔ بے چارے بن کر رہ جائیں گے اور ڈیٹنشنس سنٹرس کی طرف گھسیٹے جائیں گے ۔ کچھ ہی دن رہ گئے ہیں اپنے لیڈروں کا قد بڑھانے کے بجائے اپنا قد بڑھاکر ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیں ۔ آپ کے ہاتھ مضبوط ہوں گے تو لیڈروں کے خود بخود اوسان خطا ہوجائیں گے ۔ ذرا سوچو ، این پی آر سے ہی آپ کو ٹکر کا مقابلہ ہے ۔ اس میں کامیاب ہوگئے تو ماباقی مقابلے کے لیے میدان ہی باقی نہیں رہیں گے ۔