بھیما کورے گاؤں ایک سیاسی سنگ میل بن کر ابھرا ہے ‘ جس سے دلتوں کی سونچ کو شامل کرنے کے نئے راستے فراہم کئے ہیں۔
پونا۔ منگل کے روز بھیما کورے گاؤں کے وکٹرے پلر پر تین لاکھ سے زائد لوگ جمع ہوئے ‘ ممبئی میں چیتا بھومی اور ناگپور کے دیکشہ بھومی کے بعد یہ ایک مقدس مرکز بن کر ابھر رہا ہے۔
پچھلے تشدد کے بعد جس میں ایک شخص کی موت او رمتعدد زخمی ہوئے تھے‘ اس کے بعد انگریز فوج کے ساتھ ملکر ماہا ر سپاہیوں کی پیشواہی کے خلاف لڑائی میں جیت اب ایک نئے دور کی شروعات بن رہی ہے۔
یہ وقار ‘ خود اعتمادی اور بھروسہ کے یہ برعکس ہے جس کے ذریعہ دلت دعویداری کی حفاظت کی جارہی ہے۔
پچھلے سال کا بھیما کورے گاؤں میں پیش آیا واقعہ نے تو غیر معمولی تھا اور نہ ہی من گھڑ ت تصور کیاجاسکتا ہے‘ مخالف دلت رحجان ملک میں تیزی کے ساتھ فروغ پانے کی وجہہ بنا ہے بالخصوص 2014کے بعد سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔
حیدرآباد یونیورسٹی اسکالر روہت ویمولہ کی خودکشی‘ اونناؤ میں دلت کے ساتھ بدسلوکی‘ سہارنپور میں ٹھاکر دلت کشیدگی مخالف دلت کیامشترکہ طاقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔بھیما کورے گاؤں میں جمع لوگوں پر حملہ دلتوں کے سیاسی اعتراف کے خلاف ایک اسٹرائیک تھا۔
مہارشٹرا پولیس نے اس واقعہ پر ا س وقت تضاد پیدا کردیاجب اس نے اپنے دعوی میں ایلغار پریشد میں شامل لوگوں اور بھیماکورے گاؤں تشدد بھڑکانے والوں ’’ رابن نکسل‘‘ قراردے کئی لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے‘ اور ساتھ میں اس بات کا بھی دعوی کیاکہ یہ لوگ وزیراعظم کے قتل کی منصوبہ سازی کررہے تھے۔
ایلغار پریشد معاملے میں گرفتار پانچ میں سے چار لوگ اب بھی جیل میں ہیں اور وہیں بھیما کورے گاؤں میں دلت گروپس کو نشانہ بنانے کا جن پر الزام ہے وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔
پچھلے سال اپریل میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم اور مبینہ طور سے مرکز کا مطالبے کو پورا کرنے کا اقدام دلت اور اونچی ذات کے ہندؤوں دونوں کو سڑکو ں پر اتر نے کے لئے مجبور کردیاتھا۔
اس کے بعد بھیما کورے گاؤں ایک خصوصیت کے ساتھ دلت نظریہ کے طور پیش کیاگیا۔انہوں نے دفاعی طور پر بی جے پی کا پیچھا کیا اور فیصلہ مدھیہ پردیش‘ چھتیس گڑھ اور راجستھان کے بااثر انتخابات میں سامنے آیا۔
پچھلے پانچ سالوں میں دلت لیڈروں کا ایک نیاجتھا منظرعام پر آیا ہے ‘ جس میں جگنیش میوانی اور چندرشیکھر آزاد ہیں اس کے برخلاف عوام کو اکٹھا کرنے والے سیاست داں جیسے مایاوتی ‘ رام ولاس پاسوان ‘ جنھوں نے اپنی سیاست کو دوبارہ بحال کرلیا۔