ایگزٹ پولس کا تماشہ

   

نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھکو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ویسے تو ہر بار انتخابات کے بعد ایگزٹ پولس جاری کئے جاتے ہیں اور یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ ملک کے عوام نے کس پارٹی کو کتنے ووٹ دئے ہیں اور کس پارٹی کو اقتدار مل رہا ہے اور کون اقتدار سے بیدخل ہو رہا ہے ۔ اقتدار سے بیدخل ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں میڈیا نے جس طرح خود کو جانبدار اور سیاسی فریق بنالیا ہے اس کے نتیجہ میں خود میڈیا کی ساکھ تقریبا ختم ہو کر رہ گئی ہے اور اس کے تبصروں اور تجزیوں کو بھی عوام نے سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا ہے ۔ ملک میں انتخابات کا عمل پورا ہو چکا ہے ۔ سات مراحل میں عوام نے اپنے ووٹ کا استعمال کرلیا ہے اور کل منگل کو ووٹوں کی گنتی ہونے والی ہے ۔ ووٹوں کی گنتی کے ذریعہ یہ واضح ہوجائیگا کہ کس پارٹی کو عوام نے کتنے ووٹ دئے ہیں۔ کس کو کتنی نشستیں حاصل ہونگی اور ملک پر اقتدار کس کا ہوسکتا ہے ۔ یہ ایک طئے شدہ عمل ہے تاہم جس طرح سے میڈیا اداروں اور سروے کمپنیوں نے ایگزٹ پولس کی تشہیر کی ہے وہ کسی تماشے سے کم نہیںہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ادارے کے اعداد و شمار اتفاقا درست بھی ثابت ہوجائیں یا جس طرح ماضی میں کچھ مواقع پر ہوا ہے کہ تمام ہی پیش قیاسیاں غلط ثابت ہوجائیں لیکن خود ساختہ ایگزٹ پولس میں ٹی وی اینکروں نے اپنے آپ کو مذاق کا موضوع بنالیا ہے ۔ اس کی واضح مثالیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔ ہریانہ جیسی ریاست میں جہاں لوک سبھا نشستوں کی کل تعداد محض 10 ہے وہاں بی جے پی یا این ڈی اے کو 16 نشستوں تک کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی ہے ۔ یہ میڈیا کا ایک بھونڈا اور بھدا مذاق سامنے آگیا ہے ۔ اسی طرح کچھ اور ریاستوں میں بھی بعض جماعتوں کو اتنی نشستوں پر کامیابی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جتنی نشستوں پر اس جماعت نے مقابلہ ہی نہیں کیا ہے ۔ یہ ملک کے عوام کے ساتھ ایک طرح کا انتہائی بھونڈا مذاق ہے اور اس کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ملک کے عوام نے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے اور اسی کی بنیاد پر نتائج سامنے آئیں گے لیکن عوام کو گمراہ کرنا یا بیوقوف بنانا میڈیا کا وطیرہ بن گیا ہے ۔
میڈیا میں جس طرح سے ہر جماعت یا ہر اتحاد کو نشستوں کی پیش قیاسی کی گئی ہے وہ بھی قابل یقین دکھائی نہیں دیتی ۔ کم از کم اس کا طریقہ کار اطمینان بخش دکھائی نہیں دیتا کیونکہ کل ہی رائے دہی کی تکمیل ہوئی ہے اور ایک گھنٹے کے اندر اندر میڈیا اداروں کی جانب سے ایگزٹ پولس کی تشہیر شروع کردی گئی ہے ۔ ابتدائی چھ مراحل کے تعلق سے پھر بھی سوچا جاسکتا ہے کہ کوئی سروے کیا گیا ہوگا یا کوئی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہوگا تاہم آخری مرحلہ میں ہفتے کو 57 نشستوں پر ووٹ ڈالے گئے تھے ۔ ان نشستوں کا کس طرح سے نتیجہ اخذ کیا گیا ہے یہ ایک بڑا سوال ہے ۔ الیکشن کمیشن کو تمام طرح کی مشنری اور عملہ رکھتا ہے اور ہر ریاست سے اسے باضابطہ اطلاعات فراہم کی جاتی ہیںا س کے باوجود محض ڈالے گئے ووٹوں کا فیصد جاری کرنے میں کئی کئی دن صرف کردیتا ہے اور کئی دن بعد اچانک ہی ووٹوں کے تناسب میں تبدیلی کی جاتی ہے اور اس کو بڑھا دیا جاتا ہے تو رائے دہی کے ایک تا دو گھنٹے کے اندر دعوی کے ساتھ نشستوں کی تعداد ظاہر کرنا قابل فہم نہیں دکھائی دیتا ۔ خاص طور پر جن اداروں نے ایگزٹ پولس ظاہر کئے ہیں انہوں نے ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے محض ووٹوں کا تناسب ظاہر کرنے کیلئے لئے گئے کئی دنوں کے وقت کی مدافعت کی تھی اور کہا تھا کہ اس میں قابل گرفت کچھ بھی نہیں ہے ۔ میڈیا کی جانب سے یہ بھی ایک طرح کا مذاق ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان ہی اداروں نے دو الگ الگ پہلووں پر دو الگ الگ موقف ظاہر کئے ہیں۔
ماضی کے تجربات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس سے پہلے کئی بار ایگزٹ پولس درست بھی ثابت ہوئے ہیں اور کئی بار یہ ایگزٹ پولس غلط بھی ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم یہ بات طئے ہے کہ ماضی میں جب اس طرح کے سروے کئے جاتے رہے تھے اس وقت ان اداروں کی جانب سے یا میڈیا گھرانوں کی جانب سے کسی طرح کی جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا ۔ آج ملک کا تقریبا تمام میڈیا جانبدار اور فریق بن گیا ہے اس لئے بھی ان اداروں کے ایگزٹ پولس میں صداقت کی گنجائش کم رہ جاتی ہے ۔ نتائج تو بہر حال کل سامنے آجائیں گے تاہم اس بار کے ایگزٹ پولس ایک تماشہ سے کم نہیں کہے جاسکتے ۔