’’اے ارض مقدس تجھے میرا سلام

   

‘‘ ڈاکٹر قمر حسین انصاری

(گذشتہ سے پیوستہ )  بحیثیت مسلمان اور اُمت محمدی ہمارا ایمان اللہ کے بھیجے ہوئے تمام انبیاء کرام اور رسولوں پر اور اُن پر نازل شده کتابوں پر ہے ۔ ہائے رے بد بخت یہود و نصارہ جنہوں نے قرآن مجید اور جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا انکار کیا اور دوزخ کو اپنا آ خری ٹھکانہ بنالیا ! حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں ’’ آپؐ نے فرمایا قسم ہے اُس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے ۔ اُس اُمت کا (یعنی اِس دور کا) جو کوئی بھی یہودی اور نصرانی میری خبر سُن لے (یعنی میری نبوت اور رسالت کی دعوت اس تک پہنچ جائے ) اور وہ پھر مجھ پر اور میرے لائے ہوئے دین پر ایمان لائے بغیر مر جائے تو ضرور وہ دوزخیوں میں ہوگا‘‘۔ (رواہ مسلم) فلسطین نبیوں کی رہائش گاہ رہی ہے۔ (۱) حضرت ابراهیم علیه السلام حضرت اسحق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام یہاں رہتے تھے (  صحیح بخاری ) (۲) حضرت یعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصی کی تعمیر کی جو کعبۃ اللہ کے چالیس سال بعد بنی ۔ (صحیح بخاری) حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ جن کے ۱۲ صاحبزادے تھے جن میں چہیتے حضرت یو سف ؑ تھے (سورۃ البقرہ) حضرت یعقوب ؑکی اولاد بنی اسرائیل کہلائی ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کی جلن اور حسد کی وجہ فلسطین چھوڑنا پڑا۔ کئی سال مشکل اور مصیبتوں کے بعد انہیں مصر کا کا گورنر بنایا گیا۔ تب آپؑ نے اپنی فیملی کو مصر بُلا لیا ۔ (سورہ یوسف ) (۳) کئی سالوں کے بعد بنی اسرائیل کو فرعون نے غلام بنایا جن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو پیدا کیا اور بڑا کیا جنہوں نے اپنی قوم کو غلامی سے نجات دلائی اور بحیر احمر (RED SEA) پار کر کے سینائی صحرا پہنچے۔ (سورہ طہٰ) (۴) اللہ نے حکم دیا داخل ہوجاؤ فلسطین میں ( سورۃ المائدہ ) جب حضرت موسیـ علیہ السلام ارض مقدس (فلسطین ) میں داخل ہونے کی خواہش کی۔ لیکن وہ رحلت فرما گئے ۔ (۵) اللہ نے حضرت یوشع علیہ السلام ( جو کہ ایک بہادر سپاہی تھے ) کو بھیجا جنہوں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کرکے فلسطین فتح کیا۔ (سورۃ المائده )(۶) پھر کئی سال بعد اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بھیجا اور انھیں فلسطین کا بادشاہ بنایا ۔ (سورۃ البقره)  (۷)  حضرت داؤد ؑکے صاحبزادے حضرت سلیمان علیہ السلام جو نبی تھے جن کو اللہ نے کئی معجزات سے نوازا تھا جیسے آپؑ  ہوا کو کنڑول کرتے تھے اور جانوروں اور جنّات سے باتیں کیا کرتے تھے ۔ (سورۃ  النمل ) اُن کا وہ مشہور قصہ جس میں انہوں نے کہا تھا ’’اے چیونٹیوں اپنے اپنے بلوں میں چلے جاؤ‘‘۔ یہ واقعہ فلسطین میں ’’وادی نمل ‘‘ میں پیش آیا تھا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فلسطین میں ہی رہ کر پوری دنیا میں حکومت کی تھی ۔ (۸) کئی عرصہ بعد مسجد اقصیٰ تباہ ہوگئی ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی رعایا کو حکم دیا کہ اس کی تعمیر نو کریں۔ (سورہ سعد) روایتوں میں آتا ہے کہ جنات نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم پر مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو کی ۔ (۹) حضرت ذکریا علیه السلام اور اُن کے صاحبزادے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی عبادت گاہ فلسطین تھی (۱۰)حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام بھی فلسطین میں پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی زندگی کو اللہ کی عبادت میں وقف کر دیا ۔ (سورۃ آلِ عمران ) بی بی مریم علیها السلام نوجوان بچی تھیں اور اُن کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔ (۱۱) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے کئی معجزات سے نوازا ۔ (سورۃ آلِ عمران)  جنہوں نے اپنی قوم کو کئی برس تک اللہ کا پیغام دیا مگر اُن کی قوم نے نہیں مانا اور انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا کریہیں سے اپنی طرف اُٹھا لیا (سورۃ آلِ عمران) اور ایک دن وہ واپس آئینگے ان شاء الله ۔ (۱۲) آخری زمانے کی علامت یہ ہے که حضرت عیسیٰ علیه السلام ملک شام میں آسمان سے ایک سفید مینارے پر اُتریں گے۔ (۱۳) فلسطین میں ہی حشر و نشر ہوگا۔ آخری زمانے میں اس سرزمین میں یا جوج ماجوج قتل ہوں گے۔(۱۴) ہمارے پیارے نبیؐ کے ’’سفرِ معراج ‘‘کی پہلی اور آخری منزل بھی بیت المقدس ہی تھی۔ مسجد اقصیٰ میں آپ نے تمام انبیاء کرام کو دو رکعت شکرانہ نمازپڑھائی ۔ اس طرح آپؐ امام الانبیاء بنے ۔ (سورۃ الاسراء ۔ صحیح مسلم)  بیت المقدس نام قرآن مجید نازل ہونے کے پہلے کا ہے ۔ جب قرآن نازل ہوا تو اِسے مسجد اقصیٰ کا نام دیا گیا اور اُس کے امتیازی پاکیزگی کی وجہ سے اُسے مقدس کہا۔ سنہ ۵۸۳؁ ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے فلسطین کو دوبارہ فتح کیا ۔ یہ جمعہ کا دن تھا ۔ یقین ہے کہ اب ہم پر واضح ہو گیا کہ مسجد اقصیٰ پر تاریخی اور مذہبی اعتبار سے ہم مسلمانوں کا سب سے زیادہ حق ہے اور ہم ہی اس کے وارث ہیں ۔ غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کے سرکاری اعلامیہ کی گونج میں احمد ندیم قاسمی کی مشہور نعت کا یہ شعر جس میں دُعا اور التجا یک جان ہو گئے ہیں۔ مسلمانان عالم کے لئے بہت موزوں اور بروقت ہے ؎ ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا