ڈاکٹر قمر حسین انصاری
آج کے اس فتنوں کے زمانے میں با مقصد زندگی گزارنا ایک ایک بڑا چیلنج ہو گیا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ اُس زمانے میں تمہارا کیا حال ہو گا جو قریب ہے کہ آ جائے ۔ اُس زمانے میں لوگوں کو اچھی طرح چھانٹا جائیگا۔ اور لوگوں میں سے ایسے ( بے کار ) لوگ رہ جائیں گے کہ جیسے بھو سے۔ اُنہیں نہ عہد کا پاس ہوگا نہ امانتوں کا ، اور باہم اختلاف کر کے اس طرح گُتھم گُتھا ہوجائیں گے ، آپؐ نے اپنی اُنگلیاں ایک دوسرے میں ڈال کر (گُتھم گُتھا ) ہونے کا حال بیان فرمایا ‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ جب ایسا ہو جائے تو ہم کیا کریں ؟ رسول الله ﷺنے فرمایا : ’’ جو نیکی کی بات دیکھو اُس پر عمل کرو اور جو بُرائی دیکھو اُسے چھوڑ دو اور خاص اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور عوام کو اُن کے حال پر چھوڑدو ‘‘(سنن ابی داؤد )
آج ساری دنیا میں اُمت مسلمہ کا یہی حال ہے ۔ دنیا هم پر دن بدن تنگ سے تنگ تر ہوتی جارہی ہے۔ مگر افسوس کوئی بھی اپنا محاسبہ کرنا نہیں چاہتا اور نہ ہی اپنی اصلاح جوکہ اصلاح معاشرہ کی پہلی شرط ہے
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
علامہ اقبالؔؒ
آج ہمارا ملک اور هماری ملت دونوں ایسی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے جہاں مذہبی جنون اور فرقہ پرست عناصر اپنی انتہا پر ہیں، جنہیں سیاسی جماعتوں کی پُشت پناہی ہے۔ اگر اس پر جلد توجہ نہ دی گئی تو ہم اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے ۔ جس سے ملک اور ہم تباہ ہو کر رہ جائیں گے ۔ خوش قسمتی سے یہ طبقہ اقلیت میں ہے ۔ ہمارے ملک کی اکثریت ابھی بھی سمجھدار ، امن پسند اقلیتوں کی ہمدرد ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اُن ہم خیال ہندو بھائیوں سے انفرادی اور اجتماعی طور پر رابطہ میں رہیں اور اُن سے مل کر ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ ہمارا ملک پھر سے بھائی چارگی اور ہم آہنگی کا گہوارہ بن جائے ۔ مگر اس کے لئے ہمیں بے حد صبر و استقلال اور دانشمندی سے کام لینا پڑیگا ۔ جسے معلوم ہو کہ صبر ایک عبادت ہے وہ کبھی آزمائش کو لمبا نہیں سمجھتا۔ اللہ سے رجوع ہوتا ہے اور دُعا سے نہیں اُکتاتا ۔ اللہ اُسے عروج دیتا ہے ۔ بے شک میرا رب دعاؤں کا سُننے والا ہے ۔ بندے کی عاجزی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے ۔ اللہ رب العزت چُپکے چُپکے اللہ کو پُکارنے والوں اور عاجزی سے گڑ گڑانے والوں کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے۔ اللہ کے خوف اور اُمید کے درمیان زندگی گزارنے والے مومن کی نشانی ہے بہترین انسان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنا فائدہ سوچے بنا سب کے ساتھ بھلائی کرتا ہے ۔
’’ نیکی کرنے والوں کے لئے ہی اچھا بدلہ ہے‘‘ (سورہ یونس )
انسان اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے بہت قیمتی بنایا ہے اور وہ جانتا ہے کہ انسان کو اُس نے جو صلا حیتوں کا سرمایہ دیا ہے اُسے بالکل ضائع نہ کرے بلکہ صحیح طور پر اُن کو استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ ترقی اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب حاصل کرے ۔ یہی دین کی تمام تعلیمات کا حاصل اور لب لُباب ہے ۔ یہی اسلام و ایمان کا مقصد ہے ۔ جو خوش نصیب یہ چاہے کہ اُس کو ایمان کامل حاصل ہو اُس کے اسلام کے حُسن پر کوئی داغ دھبہ نہ ہو تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھی طرح جان لے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور اللہ ہی دن رات کا حساب رکھتا ہے ۔ (سورۃ المزمل) جو اُسے کُھلے گناہوں اور بداخلاقیوں کے علاوہ تمام فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے بھی بچائے رکھے گا اور اپنے قیمتی وقت اور اپنی تمام خدا داد صلاحیتوں کو بس اُنہی کاموں میں لگائے رکھے گا جن میں خیر و برکت ہے ۔ اس حقیقت کو جس نے سمجھ لیا وہی دانا اور عارف ہے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’آدمی کے اسلام کی خوبی اور اُس کے کمال میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فضول اور غیرمفید کا موں اور باتوں کا تارک ہو ( رواه ابن ماجه ترمذی شریف ) اپنی تنہائیاں سنواریں تا کہ رسوائیاں نہ ہوں۔ اے میرے بندے ! کاش تو جان لے کہ میں تیرے معاملات کیسے دُرست کرتا ہوں تو تجھے پختہ یقین ہوجائے کہ میں تیرے ماں باپ سے زیادہ تجھ پر مہربان ہوں اور اگر تیرا دل میری محبت میں پگھل جائے تو کہدے ’’الحمد لله‘‘ –