ظفر آغا
آج تقریباً پانچ ماہ کی غیرحاضری کے بعد قلم اٹھا رہا ہوں۔ کسی بھی صحافی کیلئے پانچ ماہ تک نہ لکھنا کالے پانی کی سزا سے کم نہیں ہے، لیکن کرتا کیا! کووڈ ۔ 19 نے ایسا دبوچا کہ مئی کے ماہ میں اسپتال پہونچ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جبکہ دہلی میں کووڈ۔ 19 کے مریضوں کو اسپتال میں داخلہ بھی میسر نہیں تھا۔ وہ تو اگر پرینکا گاندھی بذات خود مدد نہ کرتیں تو شاید بغیر علاج ختم ہی ہوجاتا۔ بس یوں سمجھئے کہ ان کی مدد سے دوسری زندگی ملی اور کووڈ سے بچ کر گھر واپس لوٹا لیکن ابھی اسپتال ہی میں تھا کہ اطلاع ملی کہ اہلیہ ثمینہ رضوی اور بیٹا مونس آغا بھی کووڈ کے شکار ہوچکے ہیں۔ پھر خبر آئی کہ بیوی بھی اسپتال داخل ہوگئی ہیں۔ ان کی مدد بھی پرینکا گاندھی نے ہی کی۔ بیٹے کا علاج گھر پر ہی ہوتا رہا۔ میں تو اسپتال سے زندہ سلامت گھر آگیا لیکن افسوس اہلیہ گھر نہ لوٹ سکیں اور کووڈ کا شکار ہوکر اس دارِ فانی سے رُخصت ہوگئیں۔ سمجھئے کمر ٹوٹ گئی۔ گھر اور زندگی کی جیسے ہر امید ٹوٹ گئی۔ زندگی میں ایک عجیب اندھیرا چھا گیا۔ ثمینہ کے بغیر زندگی کے معنی ہی فوت ہوگئے۔ پانچ ماہ کا عرصہ ہونے کو آیا لیکن ابھی بھی یقین نہیں آتا کہ وہ اب کبھی نہیں، لوٹیں گیں۔ ثمینہ تمہارے بغیر زندگی کیسے کٹے گی تم آکر یہی سمجھا دو تو شاید میرے آنسو تھم جائیں۔
اُردو زبان میں اہلیہ کیلئے ایک اصطلاح ہے شریک حیات، یعنی وہ جو آپ کی زندگی میں شریک ہو۔ یہی سبب ہے کہ ہر پل ثمینہ تمہاری کمی کا احساس کم نہیں ہوتا۔ وہ گھاؤ ہے کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ زندگی میں پہلی بار خود کو تمہارے بغیر بے سہارا اور مجبور محسوس کررہا ہوں۔ پلیز تم ایک بار آکر مجھ کو اپنے بغیر زندگی گزارنے کا گر سکھا دو۔ میرے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں کیونکہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں اور کیا کہوں اور جو کوئی چھوڑ کر گیا ان کو رو پیٹ کر الوداع کہہ دی۔ آخر صبر کرلیا ۔ تم کو ثمینہ کیسے الوداع کہوں۔ بھلا کوئی خود اپنی ہی زندگی کو الوداع کہتا ہے!
کانگریس ایک بڑی تبدیلی کیلئے تیار
پنجاب میں پچھلے ہفتے وہ سیاسی ہلچل رہی کہ جس کے نتیجہ میں امریندر سنگھ اقتدار سے باہر ہوگئے اور چرنجیت سنگھ چننی پنجاب کے چیف منسٹر منتخب ہوگئے۔ اس طرح پنجاب کو کانگریس نے پہلے دلت وزیراعلیٰ کا تحفہ دیا۔ کانگریس اعلیٰ کمان کی اس طرب چال سے پارٹی کے اندر اور باہر سب حیرت زدہ ہوگئے، کیونکہ پنجاب کی یہ سیاسی روایت رہی ہے کہ وہاں اعلیٰ ذات کا جاٹ سکھ ہی وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوتا ہے لیکن ایسے صوبہ میں اعلیٰ کمان نے ایک دلت چیف منسٹر دے کر اس روایت کو نہ صرف توڑ دیا بلکہ اپنے تمام حریفوں کو گویا گنگ کردیا کیونکہ یہ محض ایک سیاسی چال ہی نہیں بلکہ ایک بڑی سماجی تبدیلی کا بھی پیغام تھا۔ یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کے دوسرے نتائج ہوں گے۔ جس کے اثرات پورے ملک کی سیاست پر نظر آسکتے ہیں۔ اس فیصلے سے دو باتیں بالکل واضح ہوگئیں۔ سب سے پہلی بات جو ابھر کر آئی وہ یہ تھی کہ اب کانگریس پارٹی میں فیصلے خود راہول گاندھی کررہے ہیں اور پارٹی پر ان کی گرفت مضبوط ہوچکی ہے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ راہول گاندھی ہی کانگریس کا مستقبل ہیں۔ یہ بات کسی کو پارٹی یا پارٹی کے باہر پسند یا ناپسند ہو لیکن اب راہول گاندھی ہی کانگریس کے کرتا دھرتا ہیں اور رہیں گے۔
کانگریس کا یہ فیصلہ محض پارٹی کے مستقبل ہی نہیں بلکہ تمام حزب مخالف کے مستقبل پرانداز ہوگا کیونکہ لیڈرشپ کے مسئلہ پر کانگریس پارٹی میں جو کنفیوژن تھا اس کی وجہ سے حزب مخالف کی سیاست میں بھی کنفیوژن تھا۔ پنجاب میں راہول گاندھی نے جس طرح قدم اٹھایا، اس سے یہ واضح ہوگیا کہ پارٹی کی کمان کس کے ہاتھوں میں ہے۔ ایسا لگتا ہے اب پارٹی میں صدارت کا فیصلہ بھی جلد ہی ہوجائے گا اور بس پھر پارٹی ملک میں اپوزیشن کی سیاست کیلئے کمر کس کر میدان میں کود پڑے گی۔ پنجاب میں ایک دلت وزیراعلیٰ منتخب کر کے ایک بہت اہم اشارہ دیا ہے۔ وہ یہ کہ کانگریس پارٹی ذات پات کے سنگین مسئلہ پر سیاست کرنے کو اب تیار ہے۔ دراصل 1990ء میں منڈل سفارشات لاگو ہونے کے بعد ہی کانگریس میں ذات کے مسئلہ پر نہ صرف کنفیوژن تھا بلکہ کانگریس اس قسم کی سیاست سے پرہیز کررہی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں منڈل کے کمنڈل جیسے موضوعات کا استحصال کر دوسری پارٹیوں کا ملک میں دبدبہ ہوگیا۔ اترپردیش اور بہار جیسے اہم صوبہ ہی نہ صرف کانگریس کے ہاتھوں سے نکل گئے بلکہ فرقہ پرستی کا استعمال کرکے بی جے پی ملک کی سیاست پر حاوی ہوگئی۔ پنجاب میں ایک دلت وزیراعلیٰ منتخب کرکے کانگریس پارٹی نے اب یہ واضح اشارہ دے دیا کہ منڈل کے بعد سے پچھلے کئی برسوں میں ملک میں جو سماجی تبدیلیاں آئی ہیں۔ پارٹی ان تقاضوں کے چیلنج کا سامنا کرنے کو تیار ہے اور یہ پارٹی کیلئے نظریاتی سطح پر ایک بڑا فیصلہ ہے جس کے دوسرے نتائج خود پارٹی کے اندر اور پارٹی کے باہر جلد سامنے آسکتے ہیں۔