بہار ‘ انتخابی و سیاسی سرگرمیاں

   

ایک دل ہے اور طوفانِ حوادث اے جگر
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں
شمالی ہند کی ہندی ریاست بہار میںانتخابات جاریہ سال کے اواخر میں ہونے والے ہیں۔ ویسے تو ہر ریاست میں اسمبلی انتخابات کافی اہمیت کے حامل ہوتے ہی ہیںلیکن بہار کے انتخابات بہت زیادہ اہمیت کے حامل سمجھے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے آلہ کاروں نے اپنی اپنی سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔ کچھ سرگرمیاںبرسر عام جاری ہیں تو کچھ سرگرمیاں در پردہ بھی چلائی جا رہی ہیں۔ عوام پر اثرانداز ہونے کے ہتھکنڈے اختیار کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے تو اپنے آلہ کاروں کو استعمال کرتے ہوئے ووٹوں کی تقسیم کے منصوبوںکو بھی عملی شکل دینے کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ بہار میں گذشتہ دو دہوں سے نتیش کمار چیف منسٹر ہیں اور وہ اپنے اتحاد تبدیل کرتے ہوئے اپنی کرسی کو بہرصورت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کبھی وہ بی جے پی کے ساتھ تو کبھی مہا گٹھ بندھن کے ساتھ چلے جاتے ہیں اور اپنی کرسی بچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار میںرہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے اصولوں اور سیاسی فکر و سوچ کو خاطر میںلانے تیار نہیں ہوتے ۔ وہ کسی بھی وقت نظریات تبدیل کرتے ہوئے ایک اتحاد کا ہاتھ تھام لیتے ہیں تو کچھ وقت بعد دوسرے اتحاد کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے تو نتیش کمار بھی اپنی کرسی بچانے کی فکر میں لگے ہیں جبکہ اپوزیشن مہا گٹھ بندھن اتحاد نتیش کمار کو اقتدار سے بیدخل کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے ۔ جو کھلے عام سیاسی اتحاد اور حکمت عملیاں ہیں وہ اپنی جگہ مسلمہ ہیں اور ہر کوئی ان میں مصروف ہیں تاہم کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو در پردہ ایک اتحاد کو شکست سے دوچار کرنے اور دوسرے کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ عوام سے رجوع ہوتے ہوئے بے بنیاد دعوے اور اشتعال انگیز بیان بازیاں کی جاتی ہیں تاکہ ووٹوںکی تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے اور ان کے ذمہ جو کام دیا گیا ہے اسے پورا کیا جاسکے ۔ا س کے اثرات اور سماج پر ہونے والے اثرات کی کوئی فکر نہیں کی جاتی ۔ اپنے مفادات کی تکمیل پر ہی توجہ دی جاتی ہے ۔
بی جے پی نے گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں ریاست میں تمام طبقات کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں کو یکجا کرتے ہوئے کامیاب درج کی تھی ۔ بی جے پی ‘ جے ڈی یو ‘ لوک جن شکتی پارٹی ‘ ہم مورچہ اور دوسروں کو ساتھ ملانے میں بی جے پی کو کامیابی ملی تھی اور اس اتحاد نے ریاست میں لوک سبھا کی زیادہ نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ بی جے پی اور اس کی ہمنواء جماعتیں اس بار بھی اسی حکمت عملی کو اختیار کرنے کی منصوبہ بندی رکھتی ہیں۔ چونکہ ریاستی انتخابات میں مسائل مختلف ہوتے ہیں اور عوام کی ترجیحات بدل جاتی ہیں اس وجہ سے مہا گٹھ بندھن کی امیدیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بی جے پی نے کئی ذیلی منصوبے بنائے ہیں۔ آلہ کاروں کو میدان میں چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ووٹوں کی تقسیم کو یقینی بنانے کے منصوبوں پر عمل آوری شروع کردی گئی ہے ۔ ایسے عناصر کو میدان میںسرگرم کردیا گیا ہے جن کے نتیجہ میں مہا گٹھ بندھن کے اور سکیولر خیال رکھنے والے گوشوں کے ووٹوں کو تقسم کردیا جائے ۔ یہ نفرت کی سیاست کو آگے بڑھا نے کی حکمت عملی ہے اور بی جے پی ہمیشہ کی طرح اسی منفی سوچ کے ساتھ انتخابی حکمت عملی تیار کرتی ہے اور اس پر عمل آوری کے ذریعہ نتائج بھی حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس بار بہار کی صورتحال پہلے سے زیادہ گنجلک دکھائی دے رہی ہے اور بی جے پی یا اس کی ہمنواء جماعتوں اور اس کے آلہ کاروں کیلئے حالات پہلے کی طرح سازگار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ بی جے پی اس کا جائزہ لینے میں مصروف دکھائی دیتی ہے ۔
جہاں تک بہار کے عوام کی بات ہے تو یہ واضح ہونے لگا ہے کہ دو دہوں تک نتیش کمار کو اقتدار دینے کے بعد بہار کے عوام اب ان سے بیزار ہونے لگے ہیں۔ نتیش کمار جس طرح بی جے پی کو اپنے مفاد کیلئے اور بی جے پی نتیش کمار کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی رہی ہے اب وہ صورتحال دونوں ہی کیلئے الٹ ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ بی جے پی کیلئے نتیش کمار کا ساتھ نقصان کا باعث ہوسکتا ہے تاہم بی جے پی نتیش کمار کا ہاتھ چھوڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی ۔ مہا گٹھ بندھن کی تیاریاں اپنے طور پر جاری ہیں۔ ہر فریق کی سرگرمیاں ابھی تک کھل کر عوام کے سامنے نہیں آئی ہیں لیکن در پردہ یہ سرگرمیاں عروج پر پہونچ چکی ہیں۔