تم نے تو پرانے ہی نشانات گنے تھے
لیکن پس پردہ بھی تو کچھ زخم نئے تھے
بہار میں بالآخر وہی کچھ ہونے جا رہا ہے جس کے اندیشے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ اب جبکہ بہار میں اسمبلی انتخابات کیلئے محض چند ماہ کا وقت رہ گیا ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹ پر نظرثانی کا عمل پوری شدت کے ساتھ شروع کیا گیا ہے اور کمیشن کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ 80 فیصد سے زائد ووٹرس نے اپنے فارمس داخل کردئے ہیں جبکہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے اور رائے دہندوں کی مرضی اور ان کی رائے کے بغیر ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے فارمس پر کرنے کی کارروائی کی جا رہی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اب اعلان کردیا ہے کہ ریاست میں تاحال جو فارمس پر کئے گئے ہیں ان کی بنیاد پر 35.5 لاکھ ناموں کو فہرست رائے دہندگان سے خارج کردیا جائیگا ۔ الیکشن کمیشن کا ادعا ہے کہ لاکھوں نام ایسے ہیں جن کی موت ہوچکی ہے لیکن نام فہرست میں موجود ہیں۔ اسی طرح کئی لاکھ نام ایسے بھی ہیں جو دوسری ریاستوں کو منتقل ہوگئے ہیں تاہم نام بہار کی فہرست میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں نام ایسے بھی ہیں جو ایک سے زائد مرتبہ درج کئے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جو وجوہات بتائی جا رہی ہیں وہ ضرور واجبی ہیں ۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ فوت ہوچکے ہوں لیکن ان کے ناموں کو حذف نہیں کیا گیا ہو ۔ کچھ لوگ یقینی طور پر بہار سے باہر چلے گئے ہیں لیکن ان کے نام بھی موجود ہوں اور کچھ نام ایک سے زائدمرتبہ درج بھی ہوسکتے ہیں تاہم ان کا پتہ چلانے کیلئے الیکشن کمیشن نے کیا طریقہ کار اختیار کیا ہے اس کو واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو کچھ بھی میکانزم اس کام کیلئے اختیار کیا گیا تھا اس کو کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ لاکھوں ناموں کو جب حذف کیا جا رہا ہے تو اس دوران حقیقی رائے دہندوں کے نام بھی حذف ہوسکتے ہیں جس کا اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے لگاتار اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا ۔ اپوزیشن کے شبہات اس لئے بھی تقویت پاتے ہیں کیونکہ نظرثانی کا یہ کام ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب بہار میں چند ہی مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں اور اپوزیشن نے پہلے بھی مہاراشٹرا میں الٹ پھیر کے الزام عائد کئے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے جو ریمارکس کئے اس مسئلہ پر کئے تھے وہ بہت اہمیت کے حامل تھے ۔ ان کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ایسے وقت جبکہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے کچھ نقائص کی موجودگی کے ساتھ فہرست رائے دہندگان کو قطعیت دی جاتی ہے تو پھر عوام کو اپنے ادعا جاتا اور اعتراضات پیش کرنے کا کوئی وقت دستیاب نہیں رہے گا ۔ الیکشن کمیشن اپنے ہی شیڈول کے مطابق اور اپنے ہی وقت کے اندر تمام کاموں کو مکمل کرنے کی جدوجہد کرے گا ۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ کمیشن کی جانب سے کئی نام ایسے بھی حذف کئے جائیں گے جو حقیقی اور واجبی ووٹرس کے ہونگے ۔ ان کو حق رائے دہی سے محروم کرنا در اصل ان کے دستوری حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہوگا ۔ الیکشن کمیشن نے جب ان ناموں کو حذف کرنے کا اعلان کیا ہے تو انہیں ان ناموں کی تشہیر کرنی ہوگی ۔ ان کو عوامی حلقوں میں پیش کرنا ہوگا ۔ وہ میکانزم بھی بتانا ہوگا جس کو استعمال کرتے ہوئے ناموں کو حذف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ عوام کے اعتراضات اور ادعا جات قبول کرنے ہونگے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب کمیشن کسی دباؤ کو قبول کئے بغیر انتہائی غیرجانبداری کے ساتھ کام کرے گا اور جو نام حذف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان کو عوامی حلقوں میں جاری کریگا ۔ اپنے طور پر فیصلہ کرتے ہوئے اگر کمیشن کی جانب سے نام حذف کئے جاتے ہیں تو اس سے حقیقی ووٹرس کی حق تلفی ہونے کے اندیشے بے بنیاد نہیں ہونگے ۔
الیکشن کمیشن کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں فرضی اور غیر حقیقی ووٹرس کے نام فہرست سے نکالنے ضروری ہیں وہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا لازمی ہے کہ کوئی حقیقی ووٹر اپنے حق رائے دہی سے محروم نہ ہونے پائے اور نہ اس کا نام فہرست سے غائب رہے ۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کو ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں تمام تفصیل سے آگاہ کرنا چاہئے اور ان کی تجاویز اور رائے حاصل کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہئے ۔ یکطرفہ طور پر فیصلے کرتے ہوئے جمہوری عمل کو کھوکھلا کرنے کی کوششوں کو قبول نہیں کیا جاسکتا اور ایسی کوششوں کو بہر صورت مسترد کیا جانا چاہئے ۔