بہار و بنگال میں ووٹر لسٹ

   

سبق اک عمر تک سارے کے سارے یاد رہتے ہیں
پھر اُس کے بعد گنتی اور پہاڑے یاد رہتے ہیں
مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات کے جو نتائج رہے اس کے بعد سے ملک بھر میں ووٹر لسٹ میں الٹ پھیر کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن پر بھی جانبداری برتنے کے الزامات اب عام ہو رہے ہیں۔ ملک کی دو ریاستوں میں اب انتخابات ہونے والے ہیں۔ دونوں ہی سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک ہے بہار تو دوسری ہے مغربی بنگال ۔ بہار میںجاریہ سال کے اواخر تک انتخابات ہونے ہیں جبکہ مغربی بنگال میں آئندہ سال اسمبلی چناؤ ہونگے ۔ ان دونوں ریاستوں کے انتخابی نتائج کی بہت زیادہ سیاسی اہمیت ہے ۔ بہار میں نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں ہیں۔ بی جے پی اور نتیش کمار اس بار اپنے دو دہے طویل اقتدار کو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں تو بی جے پی مغربی بنگال میں ممتابنرجی کو شکست دینے کے منصوبے بنا رہی ہے ۔ ایسے میں اب دونوں ہی ریاستوں میں ووٹر لسٹ کے تعلق سے ہنگامہ شروع ہوگیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ بی جے پی کی جانب سے ووٹر لسٹ میںالٹ پھیر کا عمل شروع کردیا گیا ہے تاکہ نتائج پر اثر انداز ہوا جاسکے ۔ کمیشن نے ووٹرس کے اندراج کیلئے اب نئی شرائط کا لزوم کردیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ 1987 سے 2004 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کے ناموں کے رجسٹریشن کیلئے شہریت کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے اور انہیں پیدائشی صداقتنامہ داخل کرنے کو کہا جا رہا ہے ۔ ساتھ ہی دونوں والدین کے پیدائشی صداقتنامے داخل کرنے کی ہدایت بھی دی جا رہی ہے ۔ چیف منسٹر ممتابنرجی کا الزام ہے کہ الیکشن کمیشن اس طرح سے پچھلے دروازے سے این آر سی پر عمل کرنا چاہتا ہے ۔ ممتابنرجی نے تو اس عمل کو این آر سی سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ در اصل مغربی بنگال کو نشانہ بنانے کیلئے مہم شروع کی گئی ہے ۔ اسی طرح بہار میں بھی کمیشن کی جانب سے بڑے پیمانے پر ووٹر لسٹ پر نظرثانی کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور اسمبلی انتخابات سے قبل فہرست رائے دہندگان کی از سر نو اشاعت عمل میں لائی جائے گی ۔ دونوں ہی ریاستوں میں چونکہ اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے ایسے میں غیر بی جے پی جماعتوں نے اس عمل پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی نے فی الحال یہ عمل شروع کرنے پر بھی سوال کیا ہے اور کہا کہ یہ ایک طرح کا اسکام ہے ۔ جہاں تک ووٹر لسٹ میں ناموں کی شمولیت اور نئے اندراج کا سوال ہے تو کبھی بھی ووٹر کے اندراج کیلئے اسکے والدین کے پیدائشی صداقتنامہ کو طلب نہیں کیا گیا تھا ۔ اب الیکشن کمیشن کی جانب سے جو طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے اس پر اپوزیشن کو تشویش لاحق ہونی لازمی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے حالیہ عرصہ میں کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جن کے تعلق سے سوال پیدا ہو رہے ہیں اور کمیشن کی جانب سے ان سوالات کے اطمینان بخش یا تسلی بخش جواب نہیں دئے جا رہے ہیں۔ صرف اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فیصلے کئے جا رہے ہیں اور یہ الزامات سامنے آ رہے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کی بقاء کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور اس طرح کے اقدامات کے نتیجہ میں جمہوری عمل کھوکھلا ہو کر رہ جائے گا ۔ یقینی طور پر الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹ پر نظرثانی کرنے اور از سر نو اسے تیار کرنے کا اختیار حاصل ہے تاہم اس کیلئے پہلے سے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ جمہوری عمل کی حصہ دار تمام سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں اعتماد میں لیا جاسکتا ہے ۔ ان کی رائے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اپنے اقدامات سے انہیں واقف کروایا جاسکتا ہے اور ان کی تجاویز حاصل کرکے ان پر غور کیا جاسکتا ہے اور ایسا کیا جانا چاہئے ۔ یکطرفہ طور پر اچانک فیصلے کرتے ہوئے نت نئے لزوم عائد کرنے سے سوال پیدا ہونا فطری بات ہے اور ان سوالات کے کمیشن کو جواب دینے چاہئیں اور وضاحت کرنی چاہئے تاہم ایسا ہو نہیں رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف جماعتوں نے اس عمل پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور شبہات ظاہر کئے جار ہے ہیں۔
کانگریس ابتداء سے الیکشن کمیشن کے اقدامات کی مخالفت کر رہی ہے اور اس سے سوال پوچھا جا رہا ہے ۔ اب ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس اور بہار میں راشٹریہ جنتادل نے بھی کمیشن کے اس طرز عمل پر سوال اٹھایا ہے اور مختلف اندیشوں کا اظہار کیا ہے ۔ والدین کے صداقتنامہ پیدائش کی طلبی یقینی طور پر این آر سی کی شرائط پر عمل آوری کا تاثر دیتی ہے اور اس پر الیکشن کمیشن کو وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کیلئے جمہوری عمل کو مذاق نہیں بنایا جانا چاہئے اور نہ ہی اختیارات کا بیجا اور غلط استعمال کیا جانا چاہئے ۔ الیکشن کمیشن ہو یا پھر مرکزی حکومت ہو دونوں کوا س معاملے میں وضاحت کرنے کی ضرورت ہے اور جو شبہات اپوزیشن جماعتوں کو لاحق ہیں ان کا ازالہ کیا جانا چاہئے ۔
سکیولر ازم و سوشلزم سے تکلیف
آر ایس ایس کی جانب سے بتدریج اپنے منصوبوں کو اب منظر عام پر لایا جا رہا ہے ۔ آر ایس ایس لیڈر دتاتریہ ہوسابولے نے یہ دعوی کیا کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے جو دستور تحریر کیا تھا اس کے پیش لفظ میں سکیولرازم اور سوشلزم کے لفظ نہیں تھے اور ان کو برخواست کرنے پر غور کیا جانا چاہئے ۔ اس طرح آر ایس ایس نے مودی حکومت کا ایجنڈہ ملک کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ آر ایس ایس نے کبھی ملک کے دستور کو تسلیم ہی نہیں کیا اور اسے سکیولرازم اور سوشلزم سے تکلیف ہے ۔ سکیولرازم کو برخواست کرتے ہوئے ہندو راشٹر کی سمت آگے بڑھنے کے عزائم ہیں تو سوشلزم کا لفظ حذف کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینے کے اشارے دئے جا رہے ہیں جو ملک کے مفاد میںہرگز نہیںہوسکتے ۔ ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے اور یہاں بے شمار مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ اسی طرح سوشلزم نے سماج میں مساوات کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ان دونوں الفاظ پر اعتراض در اصل آر ایس ایس کی سامراجی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ ملک کی حقیقی فکرمند جماعتوں اور عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور ایسی کوششوںاور سازشوں کے خلاف منظم اور سرگرم تحریک شروع کی جانی چاہئے ۔