نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہوجائے
بہار میں انتخابی نتائج کا اعلان ہوگیا ہے ۔ تمام توقعات ‘ امکانات اور اندیشوں کے برخلاف نتائج سامنے آئے ہیں۔ جس وقت ایگزٹ پولس کے نتائج سامنے آئے تھے اس وقت بھی کہا جا رہا تھا کہ جو پیش قیاسی کی گئی ہے وہ درست نہیں ہے اور اپوزیشن کے اتحاد کو کامیابی مل سکتی ہے ۔ جہاں تک بی جے پی یا این ڈی اے کی جماعتوںکا تعلق ہے تو انہوں نے بھی آج جو نتائج آئے ہیں ان کا اندازہ نہیں کیا تھا ۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ این ڈی اے اتحاد 200 سے زائد نشستوںپر کامیابی حاصل کرے گا یا سبقت پائے گا ۔ جتنے بھی ایگزٹ پولس سامنے آئے تھے ان تمام میں کسی نے بھی اتنی بھاری کامیابی کی این ڈی اے کیلئے پیش قیاسی نہیں کی تھی ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بھی یہ دعوی کر رہے تھے کہ این ڈی اے کو 160 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگی اور بی جے پی زیر قیادت حکومت قائم ہوگی ۔ مہا گٹھ بندھن کے قائدین نے کبھی بھی ایگزٹ پولس کی پیش قیاسیوں کو قبول نہیں کیا تھا اور یہ دعوی کیا جارہا تھا کہ گٹھ بندھن کو کامیابی حاصل ہوگی اور اسے اقتدار بھی مل سکتا ہے ۔ تاہم آج جو نتائج سامنے آئے ہیں انہوں نے سارے ملک کو حیرت زدہ کردیا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ خود بی جے پی کے قائدین اور جے ڈی یو کے قائدین کو اتنی بڑی کامیابی کی امید نہیں تھی جتنی انہیں مل رہی ہے ۔ جس وقت آج صبح رجحانات ملنے شروع ہوئے تھے اس وقت بھی مقابلہ دکھائی دے رہا تھا تاہم جیسے جیسے گنتی آگے بڑھتی گئی ویسے ویسے مہاگٹھ بندھن کے امکانات ختم ہوتے چلے گئے اور این ڈی اے کو سبقت اور کامیابی ملنے لگی ۔ مہا گٹھ بندھن میں آر جے ڈی سے امید کی جا رہی تھی کہ اقتدار ملے چاہے نہ ملے لیکن آر جے ڈی بہار میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھر سکتی ہے جس طرح وہ گذشتہ انتخابات میں بن کر ابھری تھی ۔ کانگریس کے تعلق سے کہا جا رہا تھا کہ یہ آر جے ڈی یا مہا گٹھ بندھن کیلئے کمزور کڑی بن سکتی ہے تاہم جو نتائج سامنے آئے ہیں انہوں نے نہ صرف کانگریس بلکہ خود آر جے ڈی کو بھی سب سے کمزور ہی ظاہرکیا ہے ۔ دوسری جماعتوں کا حال بھی سب سے ابتر اور برا ہوگیا ہے ۔
جہاں تک جن سوراج کی بات ہے تو س کے تعلق سے کسی نے بھی زیادہ امیدیں یا توقعات وابستہ نہیں کی تھیں۔ صرف پرشانت کشور ہی تھے جو اپنی پارٹی کی کامیابی کے تعلق سے بلند بانگ دعوے کر رہے تھے ۔ ان کے جتنے بھی دعوے بہار انتخابات کے تعلق سے تھے وہ سب کے سب دھرے رہ گئے ہیںاور این ڈی اے کو اس کی اپنی توقعات سے زیاداہ کامیابی ملی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ آر جے ڈی کو جو ووٹ ملے ہیں وہ اب بھی بی جے پی یا جے ڈی یو سے زیادہ ملے ہیں لیکن یہ ووٹ نشستوں میں تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔نتائج کا تفصیلی طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے عوامل اور وجوہات کیا رہی ہیں ان کا جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ یکطرفہ نتائج کی خود بی جے پی یا اس کے زر خرید گودی میڈیا کو بھی امید نہیں تھی ۔ یہ ضرور دعوی کیا جا رہا تھا کہ این ڈی اے کو حکومت برقرار رکھنے جیسی اکثریت حاصل ہو جائے گی لیکن اتنی بڑی اور دو تہائی اکثریت والی کامیابی اب بھی ناقابل یقین دکھائی دے رہی ہے حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے ۔ ان نتائج نے اپوزیشن کو جس قدر مایوس کیا ہے اسی قدر ملک میں جمہوریت کے استحکام کے خواہاں گوشوں کو بھی مایوسی ہاتھ آئی ہے ۔ نتائج کا جب تک تفصیلی جائزہ نہیں لیا جائے گا اور اس کے پس پردہ جو کچھ بھی محرکات رہے ہیں ان کا افشاء نہیں ہوگا اس وقت تک اس طرح کے نتائج پر راز کے پردے ہی پڑے رہیں گے ۔ لازمی طور پر ان وجوہات کو سمجھنے اور انہیں منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ جو کچھ بھی سوالات پیدا ہوئے ہیں یا ہوسکتے ہیں ان کا تسلی اور تشفی بخش جواب بھی تلاش کیا جاسکے ۔
جہاں تک آر جے ڈی اور کانگریس کا سوال ہے تو یہ دونوں ہی جماعتوں کی ذمہ داری ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ ان نتائج کا اپنے طور پر کسی ذہنی تحفظ کے بغیر جائزہ لیں اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کریں کہ بہار کے عوام کی تائید حاصل کرنے میں ان سے کہاں چوک ہوگئی ہے ۔ وہ کیوں بہار کے اس ماحول کو اپنے حق میں نہیں کرسکے جو تبدیلی کے رجحانات کو ظاہر کر رہا تھا ۔ ان جماعتوں کو وسیع الذہنی کے ساتھ بہار کی کراری شکست کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی مستقبل کی حکمت عملی پر ابھی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔