بی آر ایس میں اتھل پتھل

   

بکھر گئے ہیں اندھیروں میں صبح کے جلوے
نوازشِ کرم رہنما سے بھول ہوئی
تلنگانہ پر دس سال تک حکومت کرنے والی جماعت بی آر ایس اب ایسا لگتا ہے کہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کا شکار ہونے والی ہے ۔ ہندوستان کی سیاست میں یہ ایک حقیقت بن گئی ہے کہ جہاںاقتدار ہوتا ہے وہاں سب کچھ ہوتا ہے ۔ کئی گوشوںسے لوگ خود یہاں تک پہونچتے ہیںاورا قتدار کے قریب رہنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تلنگانہ میںدس سال حکمرانی کے بعد جب ریاست میں بی آر ایس کو شکست ہوئی اور کانگریس نے ریاست میںاقتدار حاصل کیا تو صورتحال تبدیل ہونے لگی ہے ۔ حالات یہاں تک تبدیل ہوگئے ہیں کہ لوک سبھا امیدواری کیلئے جہاں کئی دعویدار ہوا کرتے تھے اور ٹکٹ حاصل کرنے ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے اب وہاں ٹکٹ کی پیشکش کو بھی بمشکل قبول کیا جا رہا ہے اور مقابلہ سے لوگ گریزاں نظر آتے ہیں۔ یہ صورتحال کی تبدیلی سیاست میںکوئی نئی بات نہیں ہے اور خاص طورپر بی آر ایس کیلئے تو کوئی نئی بات ہرگز نہیں ہے کیونکہ بی آر ایس نے بھی اپنے اقتدار کے دوران ریاست میں دس برس تک دوسری جماعتوں کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا تھا جواب اس کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ بی آر ایس میں بھی کئی جماعتوں کے قائدین شامل ہوئے تھے ۔ انہیںبھی قانون انحراف سے بچانے کی تدبیریں کی گئی تھیں۔ان کے خلاف فیصلوںکو التواء میںرکھا گیا تھا ۔ کئی قائدین کو یا تو لالچ دے کر پارٹی چھوڑنے کیلئے مجبور کیا گیا تھا تو کچھ قائدین خود اقتدار کے فائدے اٹھانے کیلئے پارٹی چھوڑنے تیار ہوگئے تھے ۔ جہاں تک بی آر ایس کی قیادت کا سوال ہے تو وہ اقتدار کے نشہ میں تھی ۔ اسے کبھی بھی اپنی شکست کے آثار دکھائی ہی نہیں دئے ۔ عوام کی جانب سے ووٹ کی طاقت کو سمجھنے سے بی آر ایس قاصر رہی ۔ پارٹی کو اپنی تدبیروں اوراسکیموں پر اس قدر یقین تھا کہ وہ شکست کے امکان پر غور کیلئے تک بھی تیار نہیں رہ گئی تھی ۔ جمہوریت میں عوام کی طاقت سب سے بڑی ہوتی ہے اور عوام نے بالآخر کانگریس کو اقتدار دیا ار بی آر ایس کو شکست سے دوچار کردیا تو پھر بی آر ایس کو صورتحال کا اندازہ ہوا اور اس وقت تک کافی تاخیر ہوچکی تھی ۔
جس طرح سے ہندوستانی سیاست گذشتہ کچھ برسوںمیں اخلاقیات اور اقدار سے عاری ہوگئی ہے وہ افسوس کی بات ضرور کہی جاسکتی ہے ۔ روایات کو تبدیل کردیا گیا ہے ۔ یہاں صرف اقتدار اور طاقت کو ہی درست سمجھا جانے لگا ہے ۔ صحیح اور غلط کا فیصلہ بھی اسی بنیاد پر کیا جا رہا ہے ۔ تلنگانہ میں بھی وہی کچھ کیا گیا تھا ۔ ریاست کے ساتھ ایک طویل تاریخ رکھنے اور اس کی ترقی میں ہم رول ادا کرنے والی کانگریس کو اپوزیشن میں رہتے ہوئے حقیقی اپوزیشن کے موقف سے تک محروم کردیا گیا تھا اور اسے اسمبلی میں صرف چھ ارکان تک محدود کیا گیا تھا ۔ یہ بھی درست نہیں ہے کہ اگر کوئی غلط کرے تو اس کے ساتھ بھی غلط ہی کیا جائے ۔ جہاں تک بی آر ایس کو آج درپیش صورتحال ہے اس میں یقینی طور پر لالچ کا عنصر بھی کار فرما ہے ۔ لوگ لالچ کا شکار ہو کر سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور بی آر ایس قائدین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ کئی قائدین سیاسی سمجھ بوجھ اور عوامی موڈ کا انداز ہ کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔ اسی لئے شائد وہ بی آر ایس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کیلئے مقابلہ سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ ان میںچیوڑلہ سے رنجیت ریڈی کی مثال موجود ہے ۔ بی آر ایس نے سب سے پہلے رنجیت ریڈی کو چیوڑلہ سے امیدوار بنانے کا باضابطہ اعلان کردیا تھا ۔ رنجیت ریڈی نے اس کو قبول بھی کیا تھا لیکن بعد میں انہیںشائد حالات اور عوامی موڈ کا اندازہ ہوا اور انہوں نے بی آر ایس کے ٹکٹ پر مقابلہ تو دور پارٹی میں برقرار ہی نہ رہنے کا فیصلہ کیا ۔
سیاسی قائدین اور حکمرانوں کو اقتدار کے نشہ کا شکار ہوتے ہوئے ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں جن کے نتیجہ میں ان کے تعلق سے عوام میں منفی رائے پیدا ہوسکے ۔ سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس میں کوئی نہ مستقل کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ کسی کو مستقل شکست سے دوچار کیا جاسکتا ہے ۔ اس کھیل میں جیت اور ہار لازمی حصہ ہے ۔ عوام کے ہاتھ میں یہ فیصلے ہوتے ہیں اور عوام کب کس کا کہاں سے پتہ اکھاڑ دیں یہ کوئی نہیں کہہ سکتا ۔ سیاسی جماعتوں کیلئے بی آر ایس کی اتھل پتھل ایک مثال ہے کہ کس طرح سے اقتدار کے بعد وابستگیاں بدل جاتی ہیں۔ ہر جماعت کو یہ صورتحال پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔