نگاران چمن اب بھی تبسّم کو ترستے ہیں
بہاروں کو چلن سکھلا گئی شاید خزاں اپنا
بی جے پی حکومتوں کے دوہرے معیارات
مرکز اور مختلف ریاستوں میں قائم بی جے پی کی حکومتیں تقریبا ہر مسئلہ پر دوہرے معیارات اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ سابق میںکسی ایک مسئلہ پر پارٹی کا موقف تبدیل ہوتا رہا ہے اور کسی مسئلہ پر پارٹی نے خود اپنی رائے سے اختلاف بھی کیا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اب سارے معاملات میں بی جے پی دوہرے معیارات اختیار کرتی جا رہی ہے اور ہر مسئلہ کو محض اپنے مفادات کی نظر سے دیکھنے کی عادی ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں جب ایک انگریزی چینل کے ٹی وی اینکر کو ثبوت و شواہد کی موجودگی کے ساتھ گرفتار کرکے عدالت میںپیش کیا گیا تھا تو بی جے پی کی ساری قیادت اس کی تائید میں کود پڑی تھی ۔ کئی مرکزی وزراء نے جو عوام کو درپیش انتہائی سنگین اور اہمیت کے حامل مسائل پر بھی کوئی رائے ظاہر کرنا یا ٹوئیٹ کرنا گوارہ نہیں کرتے انہوں نے ٹوئیٹر پر اس ٹی وی اینکر کی تائید میں رائے ظاہر کرنا اپنا فرض اولین سمجھا تھا ۔ پارٹی قائدین بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں تھے اور بعض تو چیف منسٹروں نے بھی اس اینکر کی تائید کی تھی ۔ بی جے پی کسی کی بھی تائید کرنے کے معاملے میں آزاد ہے لیکن دوہرے معیارات سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ ملک بھر میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں صحافیوں کو ‘ جو محض ٹی وی پر بکواس نہیں کرتے بلکہ حقیقی معنوں میں صحافتی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں ‘ گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے ۔ انہیں ضمانتیں تک حاصل کرنے سے روکا جا رہا ہے ۔ تازہ ترین مثال کیرالا سے تعلق رکھنے والے صدیق کپن کی ہے ۔ صدیق کپن کا قصور محض اتنا تھا کہ وہ ہاتھرس میں ہوئی انتہائی انسانیت سوز عصمت ریزی و قتل کے معاملہ کی رپورٹنگ کیلئے جا رہے تھے ۔ انہیں راستے میں دیگر افراد کے ساتھ روک لیا گیا ۔ گرفتار کرلیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا ۔ اترپردیش حکومت نے ہاتھرس کے خاطیوں کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی لیکن صحافی صدیق کپن کو ضرور گرفتار کرلیا گیا اور اب ضمانت کی شدت سے مخالفت کی جا رہی ہے ۔ یو پی پولیس کا دعوی ہے کہ صدیق کپن ہاتھرس میں ذات پات کے جذبات بھڑکانے کے منصوبے کے ساتھ وہاں جا رہے تھے ۔
یو پی حکومت کی عدالت میں پیروی کیلئے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا بھی عدالت میں پیش ہوگئے ۔ انہوں نے یو پی حکومت کے اس دعوے کی شدت سے پیروی کی کہ صدیق کپن کا تعلق ایک تنظیم پی ایف آئی سے ہے اور وہ ہاتھرس میں ذات پات کی کشیدگی پیدا کرنے کے منصوبے کے ساتھ وہاں جا رہے تھے ۔ اگر صدیق کپن کا تعلق کسی تنظیم سے ہے اور وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں تو پھر یہ وابستگی ان کیلئے کوئی منفی ریمارک والی بات نہیں ہے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ اترپردیش کی یوگی حکومت خود اپنی ریاست میں اپنی ہی بیٹیوں کی عزت و عصمت کی حفاظت نہیں کرسکتی ۔ ان کی عصمتوں کو داغدار کیا جاتاہے ۔ انہیں قتل کردیا جاتا ہے اور ان کے افراد خاندان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان کو انصاف فراہم نہیں کیا جاتا ۔ خاطی اور قاتل کھلے عام گھومتے ہیں ۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور ان کے خلاف یو پی کی بہادر پولیس کوئی ثبوت اکٹھا نہیں کرپاتی لیکن اسے صدیق کپن کے عزائم کے تعلق سے پتہ چل جاتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز پہلو ہے ۔ صدیق کے علاوہ یو پی میں دوسرے بے شمار صحافی ایسے ہیں جنہیں فرضی مقدمات میں ماخوذ کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ ایک رپورٹر کو محض اس لئے جیل کی ہوا کھانی پڑی کیونکہ اس نے مڈ ڈے میل اسکیم کے تحت طلبا کو صرف روٹی اور نمک فراہم کئے جانے کا پردہ فاش کیا تھا ۔ ایسا کرنے والے خاطی تو کھلے عام گھومتے رہے لیکن پردہ فاش کرنے والا صحافی جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا ۔
گذشتہ مہینے بہار میں جب انتخابات ہو رہے تھے انتخابی مہم کے دوران یہ الزام عائد کیا گیا کہ آر جے ڈی کے دور حکومت میں ریاست میں جنگل راج تھا ۔ یہ جنگل راج آج اگر کہیں دکھائی دے رہا ہے تو وہ اترپردیش ہے ۔ یہاں قانون نام کی کوئی شئے نہیں رہ گئی ہے ۔ بی جے پی کے قائدین اور وزراء کے اشاروں پر پولیس کام کر رہی ہے اور حکومت سے اختلاف کرنے والوں کو ٹھکانے لگادیا جا رہا ہے ۔ صحافیوں کے معاملے میں انتہاء سے زیادہ دوہرا معیار اختیار کرتے ہوئے حقیقی صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکومت کے پالتو اور زر خرید اینکروں کیلئے عدالتوں میں تک پیروی کی جا رہی ہے اور سماجی و سوشیل پلیٹ فارمس پر تک ان کی تائید ہو رہی ہے ۔ یہ ایک افسوسناک رجحان بن گیا ہے ۔
