بینک ملازمین کی ہڑتال

   

Ferty9 Clinic

بینکوں کو خانگیانے کے خلاف ملک گیر دو روزہ ہڑتال کا اثر ملک کی ابتر معاشی صورتحال پر مزید ضرب ہے ۔ بینک ملازمین ، عہدیداروں اور منیجرس نے عوامی شعبہ کے بینکوں کو خانگیانے کے مجوزہ مرکزی حکومت کے منصوبے کے خلاف اپنا شدید احتجاج درج کروایا ہے ۔ پبلک سیکٹر بینکوں کے علاوہ مرکز کی مودی حکومت ایک کے بعد دیگر سرکاری اداروں کو خانگیانے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو ملک کے مستقبل کو غیر سرکاری ہاتھوں میں دیئے جانے کی بھیانک غلطی کی جارہی ہے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جس طرح کی شروعات کی تھی اب یہی شکل ملک کے منتخب قائدین کے فیصلوں میں دیکھی جارہی ہے ۔ اگرچیکہ مرکزی وزارت فینانس نے بینکوں کو خانگیانے کے عمل کو درست قرار دیتے ہوئے اپنے منصوبوںکا برملا اعلان بھی کیا ہے ۔ یہ بھی وضاحت کی کہ تمام بینکس کو خانگیانے نے کا فیصلہ نہیں کیا گیا صرف چند بینکس کو موثر بنانے کے لئے انہیں خانگی اداروں کے حوالے کیا جارہا ہے ۔ وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے بینک ملازمین کو تیقن دیا کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا ۔ بینکوں کو خانگیانے کا فیصلہ مودی کابینہ کا ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کے اس فیصلہ پر ہنگامہ تو کیا ہے لیکن وہ حکومت کا ہاتھ روکنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ کابینہ نے ڈیولپمنٹ فینانس انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کی بھی تجویز رکھی ہے ۔ حکومت کی یہ پبلک انٹرپرائز پالیسی ایک دن ملک کے ہر شہری کو چند خانگی اداروں کے سامنے بے بس کردے گی ۔ ریاستوں میں کام کررہے تمام سرکاری بینکوں میں ہڑتال سے کام کاج ٹھپ رہا ۔ ہفتہ اور اتوارکو دو دن کی تعطیل اور پیر و ومنگل کو دو روزہ بینک ملازمین کی ہڑتال کی وجہ سے چار دن تک بینک خدمات بند رہیں جس سے عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ملک کے بینکوں کا حال پہلے ہی برا ہے ۔ بڑے بینک ہوں یا چھوٹے بینک قرض لے کر رقومات ادا نہ کرنے والوں سے پریشان ہیں ۔ ان قرض نادہندگان میں کئی بڑے مافیا گروپ کے لوگ بھی ہیں جن کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے ۔ وجئے مالیا ، نیرو مودی سے لیکر ایسے کئی بینک دھوکہ باز ہیں جنہوں نے کروڑہا روپئے کا قرض لیکر بینکوں کو کنگال بنادیا اور عوامی رقومات اس دھوکہ دہی کا شکار ہوگئیں ۔ حکومت کی سرپرستی میں کام کررہے بڑے تاجر گھرانوں کی جانب سے حاصل کی جانے والی قرض کی رقم کو واپس نہ کرنے کا اس قدر خطرناک ہوگیا ہے اس سے کئی بینک دیوالیہ کا شکار ہوگئے ۔ اب بینکوں کو خانگیانے کی وجہ سے عوام کے پیسوں کا تحفظ ہوگا یا نہیں کہا نہیں جاسکتا ۔ اس کے علاوہ بینک ملازمین کے روزگار کا مسئلہ بھی پیدا ہوگا ۔ بینکوں میں کام کرنے والے تقریباً 10 لاکھ ملازمین نے ہڑتال میں حصہ لے کر اپنے مستقبل کی فکر اور روزگار کو لاحق خطرہ پر آواز اٹھائی ہے ۔ اب حکومت کو بینک ملازمین میں کمی کی تشویش کو دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہڑتال کرنے والے بینک ملازمین نے کہا کہ وہ اس وقت تک یہ احتجاج جاری رکھیں گے تاوقتیکہ حکومت اپنے خانگیانے کی پالیسی کو واپس نہیں لیتی حکومت کی غیر مشغول سرمایہ کاری پالیسی بینک ملازمین کے مستقبل کے لئے خطرہ ہے ۔کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے بینکوں کو خانگیانے کے فیصلہ کی مخالفت کی ۔ ملک کی مالیاتی سلامتی سے سمجھوتہ کرکے جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ ملک کے مالیاتی مستقبل کے لئے نازک صورتحال پیدا کرے گا ۔سرکاری اداروں کے منافع کو خانگی افراد کے حوالے کرنا گویا ایک قومی خسارہ ہے ۔ نہ صرف بینک ملازمین بلکہ سرکاری اداروں کو خانگیانے کی وجہ سے ہر شہری متاثر ہوگا ۔ اب حکومت ریلوے کو بھی خانگی ہاتھوں کے حوالے کرنے جارہی ہے تو یہ بھی غریب عوام کے لئے شدید دھکہ ہے کیونکہ ریلوے شعبہ ملک کا واحد شعبہ ہے جس کی مدد سے کروڑہا غریب مسافر اپنی منزل کو کم خرچ میں پہنچ جاتے ہیں لیکن ریلوے کو خانگیانے کے بعد ریلوے مسافر بھی خانگی اداروں کے شکنجہ میں آجائیں گے ۔ تمام انشورنس کمپنیوں کو بھی خانگیانے کا فیصلہ تشویشناک ہے ۔ یہ کمپنیاں بھی /17 مارچ سے ہڑتال کررہی ہیں ۔ ایل آئی ٹی میں تمام یونینوں نے /18 مارچ کو ہڑتال کا فیصلہ کیا ۔ اپوزیشن نے مودی حکومت کونشانہ بنایا ہے کہ یہ حکومت بینکوں کو خانگیانے ہوئے ان بینکوں کا نام امبانی ، اڈانی بینک آف انڈیا کردے گی ۔ حکومت کو اپنے فیصلوں پر عوام کے ردعمل کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ عوام کے مفادات کو نظر انداز کردینا بھیانک غلطی ثابت ہوگی ۔