بے شک اللہ ہی بہتر کارساز ہے

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
بے شک اﷲ ہی مددگار اور سازگار ہے ۔ یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنی جلن اور حسد کی وجہ سے اپنے والد کے لاڈلے اور چہیتے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک دیا اور جھوٹی اور من گھڑت کہانی سنائی تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹیوں یہ جواب دیا : ’’پس صبر ہی بہتر اور جمیل ہے اور تمہاری بتائی ہوئی باتوں سے اﷲ ہی سے مدد طلب ہے ‘‘ (سورۂ یوسف :۱۸) حضرت یعقوب علیہ السلام کا صبر و شکر اور اﷲ کے فیصلے پر رضامندی ہمارے لئے بہترین مثال ہے جس سے ہمیں ایمان باﷲ کے کئی فائدے اور پھل ملتے ہیں ۔
مشکلات میں مشکل کُشا بھی وہی ہے رنج و غم کو دور کرنے والا بھی وہی ہے نفع اور نقصان کا داتا اور رزق اور اولاد میں برکت دینے والا بھی وہی ہے ۔ بشرطیکہ ہم اپنی ہر تکلیف اپنی ہر مشکل اور اپنے آپ کو اﷲ کے سُپرد کردیں۔ ایمان باﷲ اور توکل اﷲ کا تقاضہ بھی یہی ہے اور اُس سے مدد طلب کریں پھر اﷲ ہمیں رنج و غم میں ، مشکلات میں صبر جمیل عطا کرتا ہے ۔ حدیث قدسی ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں : ’’اﷲ کہتا ہے ایک تیری چاہت ہے ، ایک میری چاہت ہے اگر تو نے سُپرد کردیا اپنے آپ کو جس میں میری چاہت ہے تو میں تجھ کو وہی بھی دوں گا جس میں تیری چاہت ہے لیکن اگر تو نے اُس کی مخالفت کی تو میں تُجھے تھکادوں گا جس میں تیری چاہت ہے ۔ بالآخر وہی ہوگا جس میں میری چاہت ہے ‘‘ ۔
اس صبر و شُکر کی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے رحمۃ اللعالمین ﷺ فرماتے ہیں : ’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے ۔ اُس کا سارا معاملہ ہی خیر ہے ۔ مومن کے سوا کسی شخص کو یہ سعادت حاصل نہیں ۔ اگر اُسے خوشی نصیب ہوتی ہے تو شُکر ادا کرتا ہے اور اگر اُسے کوئی تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ اُس کے لئے بہتر ہوتا ہے۔‘‘ یعنی مومن اﷲ کے ہر فیصلے پہ راضی ہوتا ہے اور الحمدﷲ کہتا ہے پھر اﷲ بھی اُس سے خوش اور راضی ہوجاتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم )
صبر جمیل کی عالی شان جزا ہے بلکہ مومن کے لئے مشکلات اور مصائب کے وقت بہترین راہِ عمل بھی ہے ۔ انسان کی زندگی کے بے شمار مراحل پر اس عظیم الشان صفت کی ضرورت پڑتی ہے ۔
حسد و بغض کا عبرت انگیز انجام
حسد اور بغض ایسی اخلاقی بیماریاں ہیں جو حسد اور بغض کرنے والے کے لئے بہت نقصان دہ ہیں۔ حاسد دنیا و آخرت کے خسارے سے دوچار ہوجاتا ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی حسد کی آگ میں بُری طرح جل بُھن گئے ۔ والدین کی حضرت یوسف علیہ السلام سے فطری محبت اُن کے دل میں کانٹا بن کر چُبھ گئی ۔ حسد کی اس بیمارے نے اُنھیں یوسف علیہ السلام کو طرح طرح کی اذیتیں دینے پر آمادہ کیا لیکن اُن کی تمام تدابیر کارگر ہونے کے باوجود بالآخر وہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہوئے اور یوسف علیہ السلام اگرچہ دُکھی اور پریشان ہوئے ، مگر دُنیوی اور اخروی کامیابی و کامرانی اُن کا مقدر بنی ۔ دُکھ دینے والے حاسد بھائی بالآخر نادم و شرمندہ ہوکر آپ ؑ کے دربار میں اقرارِ جُرم کرکے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ’’انھوں نے کہا اﷲ کی قسم اﷲ تعالیٰ نے تجھے ہم پہ برتری دی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم خطا کار ہیں‘‘ ۔ ( سورۂ یوسف : ۱۲؍۹۱)
جسے اﷲ رکھے اُسے کون چکھے
حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے یہ حقیقت بھی ظاہر و روشن ہوجاتی ہے کہ جسے اﷲ رکھے اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا اور جسے اﷲ عزت دے اُسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا ۔ جسے اﷲ بچانا چاہے اُسے کوئی مار نہیں سکتا ۔ اﷲ جو چاہتا ہے وہی ہوجاتا ہے ۔ جب وہ کہتا ہے ’’كُنْ ‘‘ تو پس وہ ہوجاتا ہے ’’فَيَكُون ‘‘۔
یا اﷲ ! تیرے ماننے اور تیری عبادت کرنے والے مسلمان عالم پریشان حال ہیں ساری دُنیا متحد ہوکر ہمارے خلاف کمربستہ ہے اور ہم آپس میں بٹے ہوئے ، بے بس و مجبور ہیں ۔ باوجود ہماری تمام اخلاقی کمزوریوں کے اور گناہوں کے ہم اپنے آپ کو تیرے سُپرد کرتے ہیں تو ہماری مدد فرما اور ہماری مشکلات کو دور فرما ۔ آمین