ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر اُبھرتا ہے
سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے
تحفظ انسانی حقوق بل …؟
لوک سبھا میں تحفظ انسانی حقوق (ترمیمی) بل 2019 کو منظور کرلیا گیا۔ بل میں بعض ترمیمات کے لئے اپوزیشن کے مطالبہ کو نظرانداز کرکے اکثریتی قوت حاصل ہونے کا بیجا استعمال کرنے کا بھی ثبوت دیا گیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے کئی ارکان پارلیمنٹ نے بل کی مخالفت کی تھی اور مرکز پر زور دیا تھا کہ وہ اس بل کو واپس لے اور اس میں ترمیمات کرکے دوبارہ پیش کرے۔ حکومت نے اپوزیشن کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ترمیمات کے بغیر ہی بل کو منظوری دی۔ اس بل میں کئی خامیاں پائی جانے کی شکایت کرتے ہوئے اپوزیشن نے جن حقائق کی جانب توجہ دلائی تھی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپوزیشن کی بات کو اہمیت دیتے ہوئے اس پر غور کرے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کمیشن کو ایک خود مختار ادارہ بنانے کی بھی وکالت کی گئی لیکن بل نے کمیشن کو خود مختار بنانے کے بجائے اس کے چیرمین کی مدت کو ہی موجودہ 5 سال سے گھٹاکر 3 سال کردیا ہے۔ اس طرح حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کا خیال رکھنے والے کمیشن کی کارکردگی پر ہی روک لگادی ہے۔ یہ بل صرف ایک لیپا پوتی کا کام کرے گا جس میں بین الاقوامی معیارات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ساری دنیا میں اس بات پر تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے کہ ہندوستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ آسام کے عوام کو ہندوستانی شہریت سے محروم کردینے کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے۔ امریکہ، اقوام متحدہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں اور دلتوں پر ہونے والے مظالم کا سخت نوٹ بھی لیا گیا۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے ہجومی تشدد میں مسلم شہریوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی، خاص کر جھارکھنڈ میں تبریز انصاری کو زدوکوب کرکے مار دیئے جانے کو غیر انسانی حرکت قرار دیا گیا۔ عالمی سطح پر ہندوستان کے اندر جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف شدت سے آواز اُٹھائی جارہی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود مرکز کی مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں اپنی عددی طاقت کا بیجا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کو پامال کرنے والا بل لایا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی انسانی حقوق نے ہندوستانی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے نفرت پر مبنی جرائم کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس طرح کے واقعات کو اکثریتی آبادی رکھنے والے ایک گروپ کا ساتھ دینا اور نفرت پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ دینا ہندوستان کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ 2014 ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لینے والے نریندر مودی نے ایک ایسا نفرت کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بننے والے بیانات اور تقریریں کی تھیں لیکن 2019 ء کے انتخابات کے بعد دوبارہ اقتدار پر آتے ہی ان کا لب و لہجہ نرم ہوگیا۔ انھوں نے 23 مئی کو دوبارہ حلف لیا اور اپنی غیر جانبدارانہ تقریر میں مسلمانوں کو تیقن دیا کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا لیکن ان کی پہلی میعاد کے نفرت پر مبنی دور کے تربیت یافتہ بعض شرپسند عناصر نے مودی کی بات اور بھروسہ کا پاس و لحاظ نہیں رکھا بلکہ پہلے سے زیادہ مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں گزشتہ ایک دہے کے دوران شائد ہی نفرت پر مبنی جرائم انجام نہیں دیئے گئے جتنے گزشتہ پانچ سال کی مودی حکومت میں انجام دیئے گئے ہیں۔ وزیراعظم مودی نے 26 مئی 2019 ء کو نومنتخب ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے بھی ہندوستان کی اقلیتوں کے تحفظ کاک عہد کیا تھا لیکن بعد کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے قول سے مُکر گئے ہیں۔ ساری دنیا کے اندر انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والے اداروں نے نریندر مودی کے تعلق سے جو رائے ظاہر کی تھی وہ وقت گزرتے ہوئے درست ثابت ہورہی ہے۔ 2002 ء کے مسلم کش فسادات پر چشم پوشی اختیار کرنے والے مودی کے بارے میں عالمی فورم میں یہی کہا جاچکا ہے کہ ان کے دور میں مسلمانوں کا ماورائے قانون قتل ہوا ہے۔ بہرحال پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی بات کو اہمیت نہ دے کر مودی حکومت نے جو انسانی حقوق تحفظ قانون کو منظوری دی ہے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کو کس سمت میں لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پرینکا گاندھی کی سیاسی صلاحیتیں
کانگریس قیادت کے پیدا شدہ خلا کے درمیان پارٹی کے کئی سینئر اہم قائدین نے پرینکا گاندھی کی سیاسی صلاحیتوں پر یقین کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس کی صدارت حوالے کرنے پر زور دیا ہے۔ راہول گاندھی نے لوک سبھا انتخابات میں ناکامی کے بعد کانگریس صدارت سے مستعفی ہونے کا برسر عام اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے پارٹی شدید بحران سے دوچار ہے۔ کانگریس کے لاکھوں ورکرس بھی پرینکا گاندھی کو صدر بنائے جانے پر اصرار کررہے ہیں۔ اگرچونکہ کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ابھی راہول گاندھی کے استعفیٰ کو قبول نہیں کیا ہے، وہ ہنوز کانگریس کے صدر ہیں۔ اب پرینکا گاندھی کی سیاسی صلاحیتوں کے حوالے سے پارٹی کی صدارت ان کو سونپنے پر زور دیا جارہا ہے تو سی ڈبلیو سی کو فوری اجلاس طلب کرکے اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ظاہر کی جارہی ہے۔ پرینکا گاندھی نے سرگرم سیاست میں خود کو کس طرح نمایاں رکھا جاتا ہے اس کا مظاہرہ کرتے ہوئے اترپردیش میں ضلع سون بھدرا کا دورہ کیا جہاں چند دن قبل ہی 10 افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ پرینکا گاندھی کو آگے بڑھنے سے روکتے ہوئے یوپی کے نظم و نسق نے بڑی غلطی کی ہے جہاں سے ان کی سیاسی پیشرفت کا بگل بچ چکا ہے۔ اپنی گرفتاری پر ٹوئٹ کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے جس طریقہ سے یوپی نظم و نسق کو نشانہ بنایا ہے وہ ایک چالاک اور باخبر سیاستداں کی خوبیوں کا حامل لیڈر ہی کرسکتا ہے۔ اپنی گرفتاری پر ٹوئٹر پیام کے ذریعہ اُنھوں نے یہ ظاہر کیاکہ اب ان کے قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یوپی نظم و نسق نے انھیں گرفتار کرکے 9 گھنٹے تک حراست میں رکھا اور 50,000 ہزار روپئے کی ضمانت پر رہا کردیا۔ لیڈر کی مقبولیت اس کے سیاسی حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتی ہیں۔ صدر کانگریس کی حیثیت سے وہ پارٹی کے لئے کس حد تک موزوں ہوں گی یہ غور طلب امر ہے۔