تیرے دیوانے ڈھونڈ ہی لیں گے
خود نشاں تیرے آستانے کا
تحفظات ہندوستان کی سیاست میںہمیشہ ہی مرکزی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ مختلف پسماندہ اور دلت طبقات کو دستور میں گنجائش فراہم کرتے ہوئے تحفظات فراہم کئے گئے اور انہیں سماج کے دوسرے طبقات کے ساتھ ترقی اور آگے بڑھنے کے مناسب مواقع فراہم کرنے پر توجہ دی گئی تھی ۔ یہ تحفظات سماج کے پچھڑے ہوئے اور کمزور طبقات کو دئے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں رہنے بسنے والے تمام عوام کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ہندوستان میں مسلمان سب سے کمزور اور پسماندہ ترین برادری بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ کوئی یونہی کہی جانے والی باتیں نہیں ہیں بلکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بھی اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اس ملک میں مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ہیں۔ اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے متحدہ آندھرا پردیش ریاست میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے مسلمانوں کو چار فیصد تحفظات فراہم کئے تھے ۔ ان کی موت کے بعد بھی یہ تحفظات جاری رہے ۔ تلنگانہ کی تشکیل عمل میں لائی گئی ۔ تلنگانہ میں کے سی آر حکومت نے بھی ان تحفظات کو برقرار رکھا تھا تاہم بی جے پی وہ واحد جماعت ہے جو لگتا ہے تحفظات کے لفظ سے ہی پریشان ہوجاتی ہے اور وہ سماج کے تمام طبقات کے تحفظات کو ختم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ حالاکہ وہ دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو فراہم کردہ تحفظات کو ختم کرنے کی بات نہیںکرتی لیکن جہاں تک مسلمانوں کو فراہم کردہ محض چار فیصد تحفظات ہیں ان کو ختم کرنے کی بار بار دھمکیاں دیتی ہے ۔ یہ بی جے پی کی منفی سوچ کا ثبوت ہے ۔ اس کے ذریعہ بی جے پی اپنی مسلم دشمنی اور مخالفت کا کھل کر اظہار کرتی ہے ۔ بی جے پی کے کئی قائدین جب بھی تلنگانہ کادورہ کرتے ہیں انہیں چار فیصد تحفظات کھلتے ہیں۔ خاص طور پر وزیر داخلہ امیت شاہ جب کبھی تلنگانہ آتے ہیں چار فیصد تحفظات ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ دود ن قبل بھی انہوں نے تلنگانہ کے انتخابی دورہ کے موقع پر یہ اعلان کیا کہ بی جے پی چار فیصد مسلم تحفظات ختم کرے گی ۔ حالانکہ یہ تحفظات مسلمانوں کو ان کی پسماندگی کی بنیاد پر دئے گئے ہیں۔ان کو مذہب کی بنیاد پر دئے گئے تحفظات قرار دینا بالکل بھی درست نہیں کہا جاسکتا ۔
بحیثیت مجموعی اگر تحفظات کی بات کی جائے تو آر ایس ایس اور بی جے پی ہمیشہ ہی سے تحفظات کے مخالف رہے ہیں۔ چند برس قبل بہار میں اسمبلی انتخابات کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ نے اعلان کردیا تھا کہ تحفظات سماج کیلئے درست نہیں ہیں۔ اس کا خمیازہ بہار میںبی جے پی کو شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا ۔ اب بھی بی جے پی چاہتی ہے کہ چار سو سے زیادہ پارلیمانی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جائے ۔ بی جے پی کے کئی قائدین یہ اعلان کرتے ہیں کہ ایسی صورت میں بی جے پی دستور میں تبدیلی کرے گی ۔ اگر دستور میں تبدیلی کی جائے تو دلتوں اور پسماندہ طبقات کوفراہم کردہ تحفظات کو بھی ختم کردیا جائیگا ۔ چونکہ اس ملک میں پسماندہ طبقات اور دلت برادری کے ووٹوں کی خاطر خواہ تعداد ہے اس لئے وہ پہلے سے ان تحفظات کو ختم کرنے کی بات نہیں کرتی ۔ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس کے پس پردہ بھی سیاسی محرکات ہیںکہ کسی طرح اکثریتی برادری کوورغلاتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کئے جائیں اور اپنے اقتدار کو یقینی بنایا جائے ۔ بی جے پی کے پاس سوائے توڑ جوڑ کی سیاست کے کچھ اور نہیں رہ گیا ہے ۔ خاص طور پر تحفظات بی جے پی کو بہت زیادہ کھٹکنے لگے ہیں۔ بی جے پی ہمیشہ سے اعلی ذات والوں کی پارٹی کے طور پر جانی جاتی ہے اور وہ در پردہ اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کیلئے سرگرم ہے ۔ بی جے پی جس طرح کے ہتھکنڈے اور حربے اختیار کرتی ہے وہ اس کی منفی ذہنیت ہی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر بی جے پی یا اس کے قائدین نے کبھی بھی عوام سے ووٹ نہیں مانگا ہے ۔
پورے ملک میں اگر تحفظات کی حقیقی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ تحفظات صرف ہندو برادری کو دئے گئے ہیں۔ مسلمان اس سے محروم رہے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر ہی تحفظات دئے گئے ہیں ۔ چونکہ تحفظات پانے والے دلت اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اسی لئے بی جے پی کو یہ کھٹکتے ہیں اور وہ اعلی ذات کو خوش کرنے کیلئے تحفظات کو ختم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ ملک کے عوام کو یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ تحفظات کی گنجائش ملک کے دستور میںفراہم کی گئی ہے اور بی جے پی در پردہ دستور میں تبدیلی کی بات کرتی ہے ۔ اس کے ایجنڈہ سے ملک کے سبھی عوام کوچوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔
تلنگانہ میںانتخابی مہم
ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح تلنگانہ میں بھی انتخابی مہم نے شدت اختیار کرلی ہے ۔ ریاست میں برسر اقتدار کانگریس پارٹی زیادہ نشستوں پر کامیابی کے عزم کے ساتھ عوام سے رجوع ہوئی ہے ۔ جس طرح اقتدار حاصل کرنے کے بعد گذشتہ چار ماہ کے عرصہ میں کانگریس پارٹی نے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے پیشرفت کی ہے اس سے عوام میں کانگریس کیلئے اچھا تاثر پایا جاتا ہے ۔دوسری جانب بی آر ایس اقتدار سے محرومی کے بعد مشکل حالات کا شکار ہوگئی ہے ۔ اس کے کچھ ارکان اسمبلی ‘ ارکان پارلیمنٹ اور دوسرے قائدین پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور کانگریس و بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ پارٹی سربراہ کے سی آر ‘ کے ٹی آر اور ہریش راؤ انتخابات میں پارٹی کے امکانات کو بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ بی جے پی اپنے طور پر رائے دہندوں کو راغب کرنے کیلئے فرقہ وارانہ ایجنڈہ ہی کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مرکزی قائدین ریاست کا دورہ کرتے ہوئے ہندو۔ مسلم کی سیاست کرنے لگے ہیں۔ تحفظات کو ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کا استعمال ہو رہا ہے ۔ نفرت اور غلط اطلاعات پھیلائی جا رہی ہیں۔ تلنگانہ بحیثیت مجموعی ایک پرامن ریاست ہے اور یہاں فرقہ پرستی کوہوا دینے کی کوششوں کو عوام قبول نہیں کرینگے ۔ ریاست کے عوام کی بہتری کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور فرقہ پرستوں کی کاوشوں کو ناکام بنانے کیلئے عوام کو فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔