تحفظات پر تفریق کی سیاست

   

ہیں درد و غم کبھی تو خوشی ہے کبھی کبھی
اک امتحاں ہے زیست کی راہوں میں ہر قدم
ہندوستان میں تحفظات ہمیشہ سے ایک حساس اور اہم موضوع رہے ہیں۔ ملک میں پسماندہ طبقات کی اکثریت کو دیکھتے ہوئے یہ تحفظات فراہم کئے جاتے رہے ہیں۔ تحفظات کی وجہ سے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے طبقات کو دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ مسابقت کرتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے مواقع دستیاب ہوتے رہے ہیں۔ معاشی اور سماجی پسماندگی کو تحفظات کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے ۔ اس ملک میںمسلمان آج سب سے زیادہ پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی سیاسی لیڈر کا دعوی نہیں ہے بلکہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں پوری ذمہ داری سے پیش کی گئی سچر کمیٹی کی سفارشات میں بھی واضح ہوچکا ہے ۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے متحدہ آندھرا پردیش ریاست میںمسلمانوں کو چار فیصد تحفظات فراہم کئے گئے تھے ۔ بی جے پی نے ابتداء ہی سے اس کی مخالفت کی ۔ اس کو عدالتی کشاکش کا شکار کیا ۔ یہ مسئلہ عدالتوں میں اب بھی مختلف انداز میں زیر التواء ہے ۔ تلنگانہ کی تشکیل کے بعدا ن تحفظات کو برقرار رکھا گیا ۔ بی جے پی سیاسی اعتبار سے اور قانونی طور پر بھی ان تحفظات کی شدید مخالفت کرتی رہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جس بنیاد پر دیگر طبقات کو تحفظات فراہم کئے جاتے ہیں اگر ان کا غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے تو مسلمان سب سے پہلے تحفظات کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ تاہم بی جے پی کو محض مسلم دشمنی کی وجہ سے یہ تحفظات کھلنے لگے ہیں۔ بی جے پی جس طرح سے کسی بھی مسئلہ کو سماج میں نراج اور اختلافات کو ہوا دینے کیلئے استعمال کرتی ہے اسی طرح تحفظات کے مسئلہ کو بھی ملک کے پسماندہ طبقات ؟ او بی سی اور دلتوں وغیرہ اور مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج پیدا کرنے اور منافرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگی ہے ۔ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ تک اپنی تقاریر میں یہ اعلان کر رہے ہیںکہ او بی سی ‘ دلت اور دیگر پچھڑے ہوئے طبقات کے تحفظات مسلمانوں کو فراہم کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر طبقات کا حق مارتے ہوئے مسلمانوں کو تحفظات فراہم نہیں کئے گئے ہیں۔
مسلمانوں کو جو تحفظات فراہم کئے گئے ہیں وہ ان کی معاشی ‘ تعلیمی و سماجی پسماندگی کی پیش نظر رکھتے ہوئے دئے گئے ہیں۔ دیگر پسماندہ طبقات وغیرہ کو بھی ان کی آبادی کے تناسب سے اور دستوری گنجائش کے مطابق تحفظات فراہم کئے گئے ہیں۔ تاہم بی جے پی کا واحد مقصد مسلم دشمنی اور سماج میں اختلافات کو فروغ دینا اور منفی ذہنیت کے ساتھ تفریق پیدا کرنا ہے اسی لئے اس طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں جن کے نتیجہ میں دلتوں اور پسماندہ طبقات کو مسلمانوں سے دور کیا جاسکے ۔ جس طرح مسلمانوں کے تعلق سے دیگر ابنائے وطن کو متنفر کرنے کی مہم چلائی گئی ہے اسی مقصد کے تحت مسلمانوں اور پسماندہ طبقات میں دراڑ پیدا کرنے کیلئے یہ ریمارکس کئے جا رہے ہیں جبکہ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے منصوبوں میں ملک میں ہر طرح کے تحفظات کو ختم کرنا شامل ہے ۔ بسا اوقات خود سنگھ پریوار اور بی جے پی کے ذمہ دار گوشوں کی جانب سے تحفظات کے خلاف بیانات بھی دئے جاتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں پسماندہ طبقات میں ان کے تعلق سے ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ اس ناراضگی کو دور کرتے ہوئے پسماندہ طباقت کے ذہن بھٹکانے اور مسلمانوں سے ان کو متنفر کرنے کیلئے حکمت عملی کے تحت اس طرح کے بیانات دئے جا رہے ہیں ۔ یہ سارا کچھ سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور مستقبل کے اپنے منصوبوں اور ایسے عزائم کو پورا کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے جن کا ابھی کھل کر اظہار نہیں کیا گیا ہے ۔
اس ملک میں جو تحفظات فراہم کئے جاتے ہیں وہ دستور کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں اور بی جے پی کے کچھ قائدین کی جانب سے ایک سے زائد بار ملک کے دستور ہی کو تبدیل کرنے کے عزائم کا اظہار کیا گیا ہے ۔ اسی کی بنیاد پر پسماندہ طبقات میں بھی اس تعلق سے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں اور بی جے پی کا ووٹ بینک متاثر ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی ایک تیر سے دو نشانے لگانا چاہتی ہے اسی لئے اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے پسماندہ طبقات کی تائید دوبارہ حاصل کرنے اور ان کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کیلئے یہ بیان بازیاں چل رہی ہیں جو بی جے پی اور اس کے قائدین کی منفی سوچ و ذہنیت کو آشکار کرتی ہیں۔