زندگی پر ایسا گزرا سانحہ
ہر گھڑی لب پر نامِ خدا ہے
تلنگانہ میں دس برس تک بی آر ایس کے اقتدار کے بعد کانگریس پارٹی کواقتدار حاصل ہوا تھا ۔ کانگریس نے انتخابات کے موسم میں سماج کے تمام طبقات کیلئے کئی اہم وعدے کئے تھے ۔ انہیںکئی طرح کی سہولیات کی فراہمی کا تیقن دیاگیا تھا ۔سماجی سطح پر انصاف رسانی اور مساوی مواقع فراہم کرنے کا بھی تیقن دیا گیا تھا ۔ عوام نے تبدیلی کو قبول کیا اورکانگریس کو ریاست میںاقتدار حاصل ہوا تھا ۔ کانگریس نے اقتدارسنبھالنے کے بعد بھی کچھ وقت تک تمام طبقات کو ساتھ لے کرچلنے کی بات کی ۔ جو وعدے عوام سے کئے گئے تھے انہیں پورا کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔ ریاست میں کانگریس ٹکٹ پر ایک بھی مسلم امیدوار رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوسکا تھا ۔ اسی وجہ سے حکومت کی تشکیل کے وقت کابینہ میںکسی مسلمان کو شامل نہیں کیاگیا تھا ۔ کانگریس کو ریاست میں اقتدار سنبھالے دیڑھ برس کا عرصہ گذر چکا ہے تاہم اب تک بھی ریاستی کابینہ میں کسی مسلمان کو جگہ نہیں دی گئی ہے ۔سماج کے تمام طبقات کی جانب سے دباؤ بنانے کی حکمت عملی پرعمل کرتے ہوئے اپنے مطالبات کو منوایا جا رہاہے۔ کابینہ ہو یا پھر سرکاری عہدے ہوں ان میں موثراور خاطر خواہ نمائندگی حاصل کی جارہی ہے ۔حکومت اور کابینہ میںعہدے حاصل کرنے میں یہ طبقات اور برادریاں کامیاب بھی رہی ہیں۔ کانگریس کی ریاستی اور مرکزی قیادت نے سماجی انصاف کا نعرہ دیا تھا ۔قائداپوزیشن راہول گاندھی بھی ملک گیرسطح پرسماجی انصاف کی بات کر رہے ہیں۔ آبادی میں جس کی جتنی آبادی اس کی اتنی حصہ داری کا نعرہ دیا جا رہا ہے ۔ سماج کے پسماندہ اورپچھڑے ہوئے طبقات میں اس نعرہ کی وجہ سے ایک آس اورامیدپیدا ہورہی ہے ۔تاہم ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ میںاس نعرہ کو محض نعرہ تک محدود کردیا گیا ہے ۔کیونکہ دیگر طبقات کو تو ان کی آبادی کا تناسب دیکھتے ہوئے ہر شعبہ میںحصہ داری دینے کی پہل کی جاچکی ہے لیکن اس معاملے میں اگرکوئی نظر انداز کئے جا رہے ہیںتووہ مسلمان ہیں۔ ریاست میںریونت ریڈی کی حکومت مسلمانوں کو محض چند کارپوریشن کے عہدے فراہم کرتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہی ہے ۔ تلنگانہ یا متحدہ آندھرا پردیش میںیہ پہلا موقع ہے کہ کابینہ میں کوئی مسلم وزیر شامل نہیں ہے ۔
ماضی میں متحدہ آندھرا پردیش میں کانگریس حکومتوں میں بیک وقت دو دو وزیر بھی شامل کئے گئے تھے ۔ انہیںاقلیتی بہبود کے علاوہ دوسرے قلمدان بھی سونپے گئے تھے ۔خود کے سی آر کی قیادت والی بی آر ایس حکومت کی دونوںمعیادوں میں مسلم وزیر تھے ۔ انہیں ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا ۔مال اورداخلہ کے اہم قلمدان بھی دئے گئے تھے ۔ تاہم کانگریس حکومت میں کسی بھی مسلم وزیر کو شامل نہ کرتے ہوئے سماجی انصاف کے نعرہ پر عمل آوری سے گریز کیا جا رہا ہے۔ ریاست کے مسلمانوں نے راہول گاندھی کی جدوجہد کی تائید و حمایت کی تھی ۔ ان کے نعرہ پر یقین کیا تھا ۔ راہول گاندھی کیبھارت جوڑو یاترا اور پھر بعد میں دئے گئے ان کے بیانات پر یقین کرتے ہوئے کانگریس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس کیلئے منظم انداز میں مہم بھی چلائی گئی تھی ۔ کانگریس کے وعدوں پر یقین کیا گیا تھا لیکن ریاستی کابینہ میں کسی بھی مسلمان کو شامل نہ کرتے ہوئے کانگریس حکومت نے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے ۔ تلنگانہ کے مسلمان کانگریس کی مرکزی اورریاستی دونوںہی قیادتوں سے سوال کرنے لگے ہیں کہ کیوں کسی مسلمان کو کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ ارکان اسمبلی کا کوٹہ ہو یا مجالس مقامی کا کوٹہ ہو کسی بھی کوٹہ میں کسی مسلمان کو ایم ایل سی بھی نہیں بنایا گیا۔ صرف گورنر کوٹہ میں ایک کونسل نشست دی گئی ہے۔ وزارت میں شمولیت سے گریز کے جو عذر پیش کئے جارہے ہیں وہ مسلمان قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جو امیدیں مسلمانوں نے کانگریس حکومت سے وابستہ کی تھیں وہ ٹوٹ رہی ہیں اور مسلمانوں میں ناراضگی اور مایوسی پیدا ہوگئی ہے۔
ریاست میں دلت طبقات اور پچھڑی ہوئی برادریوں کو تک بھی ان کی آبادی کے اعتبار سے تحفظات فراہم کئے جار ہے ہیں۔ ان کیلئے سب پلان چل رہے ہیں۔ انہیںدباؤ کوقبول کرتے ہوئے کابینہ اور سرکاری عہدوں میں مناسب نمائندگیاں دی گئی ہیں لیکن مسلمانوں کے تعلق سے ہی سرد مہری اختیار کی جا رہی ہے ۔ مسلمانوں کی مایوسی مزید گہری ہونے سے پہلے کانگریس کی مرکزی قیادت کوریاست کی صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوںکی مایوسی ناراضگی میں بدلنے سے پہلے غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے ۔ جو تیقنات دئے گئے تھے اورجو وعدے کئے گئے تھے انہیں پورا کیا جانا چاہئے ۔ اگر مایوسی ‘ ناراضگی اور برہمی کی شکل اختیار کرلے تو پھر کانگریس کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور کانگریس ان اثرات کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ریاستی اور مرکزی قیادتوںکواس کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔
فضائی سفر کو محفوظ بنانا ضروری
گذشتہ دنوں احمدآباد میںپیش آئے ائرانڈیا طیارہ کے حادثہ نے سارے ملک میں غم کی لہرپیدا کردی تھی ۔250 سے زائد مسافرین کی موت ہوگئی ؎۔ کرشماتی طورپر ایک مسافر محفوظ رہ سکا ۔ طیارہ حادثہ کی جو وجوہات رہی ہیںابھی ان کا پتہ نہیںچل سکاہے اور اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیںتاہم ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ حکام کی جانب سے فضائی سفر کومحفوظ بنانے پرتوجہ دی جائے ۔طیاروں کی حالت اور پرواز کیلئے ان کے محفوظ ہونے کا وقفہ وقفہ سے جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ سینکڑوں مسافرین ہر طیارے میں سفر کرتے ہیںاور فضائی سفر کومحفوظ بھی سمجھا جاتا ہے۔معمولی سی خرابی یا غلطی جان لیوا ثابت ہوتی ہے ۔ ایسے میں حکومت اور ہوابازی حکام کواس معاملے کوسنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ ملک میںتمام طیاروں کا وقفہ وقفہ سے معائنہ ہوناچاہئے۔ ان کی تکنیکی باریکیوں کو بہتر بنانا چاہئے ۔ ایک جامع منصوبہ تیارکرتے ہوئے طیاروں کی حفاظت سے متعلق اقدامات کووقفہ وقفہ سے لاگو کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں احمد آباد جیسے ہلاکت خیز حادثات سے محفوط رہا جاسکے اور فضائی سفر کے تعلق سے لوگ اندیشوں اور خوف کا شکار ہونے نہ پائیں۔