رفتہ رفتہ معاملت کی سمت ہیں آئے ہوئے
ان کے داؤ بیچ لگتا ہے کہ سب ضائع ہوئے
تلنگانہ کانگریس کی بقا کا مسئلہ
تلنگانہ کانگریس کے ایک درجن ارکان اسمبلی کا پارٹی سے انحراف اور کانگریس لیجسلیچر پارٹی کو حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی میں ضم کرنے کی درخواست کانگریس کے لیے شدید دھکہ ہے ۔ خاص کر ریاست میں عام انتخابات میں 17 لوک سبھا حلقوں کے منجملہ 3 پر پارٹی کی کامیابی کے بعد ایسی صورتحال رونما ہونا افسوسناک ہے ۔ کانگریس کو نہ صرف تلنگانہ میں بلکہ بہار میں بھی اپنے حلیفوں کے ساتھ سیاسی بحران کا سامنا ہے اور پنجاب و راجستھان میں بھی اس کو داخلی انتشار سے دوچار ہونا پڑرہا ہے ۔ تلنگانہ میں قومی پارٹی کانگریس کا اس قدر برا حال کرنے والے 12 ارکان اسمبلی کو انسداد انحراف قانون کی گرفت میں بھی نہیں لایا جاسکتا کیوں کہ کسی بھی پارٹی کے دو تہائی منتخب ارکان اسمبلی اگر دوسری پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو انہیں مستعفی ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر اسپیکر اسمبلی پوچارم سرینواس ریڈی نے کانگریس کے منحرف 12 ارکان اسمبلی کی درخواست کو قبول کیا تو کانگریس کے پاس صرف 6 ایم ایل اے رہ جائیں گے اور اسمبلی میں اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کے حق سے بھی محروم ہوجائے گی ۔ تلنگانہ کے قیام کے فوری بعد 2014 میں منعقدہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے 119 رکنی اسمبلی میں 21 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور اس کا ووٹ فیصد 25.2 تھا جب کہ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کا ووٹ فیصد بڑھ کر 28.7 ہوگیا لیکن اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد گھٹ کر 19 ہوگی ۔ ان 19 ارکان میں سے 12 نے انحراف کیا ہے اور باقی 7 رہ گئے ان میں اتم کمار ریڈی نے لوک سبھا سیٹ جیتنے کے بعد حضور نگر سے رکن اسمبلی کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا ۔ تلنگانہ کانگریس کمیٹی کو اس صورتحال کا بھاری دل سے سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ تلنگانہ میں کانگریس کے پاس ایک مضبوط قیادت کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ عوام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بھی اس کی تنظیمی صلاحیتیں کمزور اور بیمار دکھائی دیتی ہیں ۔ اگرچیکہ تلنگانہ کانگریس قائدین نے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے اپنے ساتھی ارکان اسمبلی کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے اور حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کی سیاسی انحراف پسندی کی حوصلہ افزائی کرنے کے خلاف غیر معینہ مدت کا برت بھی شروع کیا لیکن اس سے پارٹی کی داخلی کمزوری کو دور کرنے میں مدد نہیں ملے گی ۔ بلا شبہ عوام کا خطِ اعتماد حاصل کرنے والے کانگریس کے ارکان اسمبلی نے عوام کے بھروسہ کو ٹھیس پہونچائی ہے لیکن اس موقع پرستی کی سیاست کا خاتمہ بھی عوام کو ہی کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ جن رائے دہندوں نے اپنے پسند کی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو منتخب کیا ہے انہیں اس بات کا بھی حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ منحرف ہونے والے ارکان کو سبق سیکھائیں ۔ اگر حکمراں پارٹی اپنی سیاسی دشمنی کا غبار اس طرح نکالتی ہے اور اپنے سامنے کسی بھی پارٹی کو اپوزیشن کے طور پر دیکھنا پسند نہیں کرتی ہے تو پھر یہ جمہوریت کی دھجیاں اڑا دینے کا نا پسندیدہ معیوب عمل کہلاتا ہے ۔ کانگریس ہائی کمان کو بھی پردیش کانگریس کے اندر پائی جانے والی کمزوریوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کے ہر لیڈر کو کرسی کی آرزو ہے ۔ کرسیوں کے لیے اگر کانگریس پارٹی کا ہر لیڈر باہم متصادم ہوجائیں یا آپسی رسہ کشی میں مبتلا ہوجائے تو پارٹی کا ستایاناس ہوجاتا ہے اور یہ نحوست پارٹی کو لے ڈوب رہی ہے ۔ جن پارٹی کارکنوں نے داخلی طور پر پائی جانے والی کرسی کی لڑائی کی جانب نشاندہی کی یا اس پر احتجاج کیا تو اس کو معطل کردیا گیا یا اس کو پارٹی سے بھی نکالا گیا ۔ ان واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے پارٹی ہائی کمان نے بھی بڑھتی ناراضگیوں سے اٹھنے والے طوفان کو محسوس نہیں کیا ۔ نتیجہ میں آج تلنگانہ کانگریس اس نو تشکیل شدہ ریاست میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ اس جنگ میں وہ کامیاب ہوسکے گی یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔۔