آج عزت اسی کی زمانے میں ہے
اپنی اوقات میں جو رہا آدمی
ہماری ریاست تلنگانہ کی سیاست ان دنوں اپنی دیرینہ اور قدیم روایات سے مسلسل دور ہوتی جا رہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے یا نظریاتی اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ہر جماعت کا وجود ہی ان نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ ہر جماعت دوسروں کے نظریات سے مختلف موقف رکھتی ہے ۔ کچھ مسائل پر ہوسکتا ہے کہ ان میں اتفاق بھی ہو لیکن بحیثیت مجموعی نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر ہی الگ الگ سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں آتا ہے اور اسی کی بنیاد پر ہر جماعت عوام کے درمیان رجوع ہوتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ ریاست کے عوام بھی موقع کی مناسبت سے کسی ایک جماعت کی تائید کرتے ہیں اور اسے اقتدار پر فائز کرتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی حکومت کے کاج پر نظررکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ہر جماعت کو اس وقت سے گذرنا ہوتا ہے ۔ کبھی اقتدار تو کبھی اپوزیشن ۔ تاہم جہاں تک بی آر ایس کا سوال ہے اس نے ابھی تک ریاست میں اقتدار ہی دیکھا ہے ۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد سے وہ مسلسل اقتدار پر فائز ہے ۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو اہمیت دینے اور اختلاف رائے کا احترام کرنے کے معاملے میں بی آر ایس ایسا لگتا ہے کہ دیرینہ روایات کو قبول کرنے تیار نہیں ہے۔ وہ اپوزیشن یا مخالفانہ رائے کو برداشت کرنے تیار نظر نہیںآتی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن کی بیشتر تنقیدیں بیجا بھی ہوسکتی ہیں لیکن ان کی کچھ تجاویز کارآمد ہوسکتی ہیں لیکن حکومت ان کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ جہاں تک اپوزیشن کا سوال ہے تو وہ بھی حکومت سے پیچھے نہیں ہے ۔ وہ بھی حکومت کو قبول کرنے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ اپوزیشن بھی سرکاری تقاریب کے بائیکاٹ کی روش پر چل پڑی ہے ۔ ریاست میں نئے سیکریٹریٹ کا کل افتتاح عمل میں آیا لیکن اس کو ساری ریاست کی ایک تقریب کے طور پر پیش کرنے کی بجائے اسے محض برسر اقتدار جماعت کی تقریب میں تبدیل کردیا گیا ۔ اس تقریب میں نہ گورنر نے شرکت کی اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اس میں نظر آئے ۔ اس میں صرف بی آر ایس قائدین شریک رہے ۔
حکومت سے حالانکہ گورنر کو بھی دعوت نامہ روانہ کیا گیا تھا لیکن یہ دعوت نامہ چیف منسٹر نے حوالے کرنے کی بجائے چیف سکریٹری کے ذریعہ روانہ کیا۔ قوانین کے مطابق اس میں کوئی غلطی نہیں ہے لیکن خیرسگالی جذبہ کا فقدان ضرور ہے ۔ اسی طرح کسی وزیر کے ذریعہ اپوزیشن قائدین کو دعوت نامے روانہ کرنے کی بجائے اپوزیشن قائدین اور ارکان اسمبلی کو ڈپٹی کلکٹرس کے ذریعے دعوت نامے روانہ کئے گئے ۔ یہ بھی محض ضابطہ کی تکمیل تھی ۔ اس میں بھی خیرسگالی جذبہ کا فقدان تھا ۔ اس میں اختلاف رائے کے احترام کا کوئی عنصر نظر نہیں آیا ۔ اس طرح جہاں حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو خاطر میں لانے کوئی رضامندی ظاہرنہیں کی جا رہی ہے وہیں اپوزیشن کی جانب سے بھی حکومت کے وجود کو قبول کرنے کے کوئی اشارے نہیں دئے جا رہے ہیں۔ یہ روش ریاست کی سیاست میں بالکل نئی ہے ۔ ریاست میں یا ملک بھر میں اکثر ریاستوں میں یہ طریقہ کار رہا ہے کہ انتخابات میں ایک دوسرے کی شدید مخالفت کے باوجود نتائج کے بعد عوام کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے حکومت اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کرتی رہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں حکومت کو قبول کرتی رہی ہیں۔ کئی مسائل پر حکومت جہاں از خود کام کرتی ہے وہیں کچھ اہمیت کے حامل مسائل پر اپوزیشن کی رائے بھی لیا کرتی ہے ۔ مرکزی حکومت سے نمائندگی کے مسئلہ پر اپوزیشن کو ساتھ ملا کر وفد کی شکل میں نمائندگی کی جا تی رہی ہے ۔ تاہم اس طرح کی روایات اب قصہ پارینہ ہی دکھائی دے رہی ہیں۔
ہر جماعت کو دوسری جماعت کی نظریاتی مخالفت کا حق حاصل ہے۔ اسی کی بنیاد پر سیاست چلتی ہے تاہم ایک دوسرے کے وجود سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ حکومت کے وقار کا احترام کرنا اپوزیشن کا فریضہ ہے ۔ حکومت کی حیثیت کو تسلیم کرنا ان کیلئے ضروری ہے ۔ حکومت کو کئی اہم امور پر تجاویز بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ حکومت بھی اپوزیشن کی رائے لے سکتی ہے لیکن نہ اپوزیشن اور نہ حکومت ایک دوسرے کے وجود سے انکار کرسکتے ہیں۔ فریقین کو اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ملک اور ریاست کی سیاست کی جو روایات اور اقدار رہی ہیں اس کی ہر دو فریق کو پاسداری کرنی چاہئے ۔