تلنگانہ کے دواخانوں کی حالت

   

اور کیا دیتے مریضانِ محبت اے دوست
مرتے مرتے تجھے جینے کی دعا دیتے ہیں
تلنگانہ کے دواخانوں کی حالت
ملک کی تقریبا تمام ریاستوں کی طرح تلنگانہ میں بھی کورونا وائرس کا قہر ہنوز جاری ہے ۔ یومیہ تقریبا دیڑھ تا دو ہزار افراد اس خطرناک اور مہلک وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں اور اموات کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ ملک بھر میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے اس وائرس سے نمٹنے کیلئے کئی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اقدامات کا تیقن اور اعلانات میں تلنگانہ حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے تاہم سرکاری دواخانوں کی حالت حکومت کے دعووں سے بالکل برعکس ہے ۔ شہر کے دو بڑے دواخانوںگاندھی ہاسپٹل اور عثمانیہ ہاسپٹل میں بدترین صورتحال ہے اور یہاں ایک طرح سے کوئی محفوظ بھی نہیں رہ گیا ہے ۔ حکومت ان دواخانوں کی حالت سدھارنے کی بجائے اپنی ترجیحات پر کام کر رہی ہے ۔ عوام کو کورونا وائرس کا شکار ہونے اور مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ گاندھی ہاسپٹل کی اگر بات کریں تو وہاں نعشیں سڑ رہی ہیں۔ ایک مریض کی نعش دوسرے کے رشتہ داروں کو سونپی جا رہی ہے ۔ کسی مریض کو شریک کیا جاتا ہے تو دو ہفتوں تک اس کا پتہ نہیں چلتا ۔ دواخانے اس کی موجودگی سے انکار کرتا ہے اور پھر اچانک اس کی نعش دستیاب ہوجاتی ہے ۔ ریاستی حکومت اور دوسرے ذمہ داران کی جانب سے عوام کی شکایات کا کوئی جائزہ نہیں لیا جاتا۔ نہ کسی عہدیدار سے بازپرس ہوتی ہے اور نہ جواب طلب کیا جاتا ہے ۔ سوشیل میڈیا اس طرح کی شکایات سے بھرا پڑا ہے ۔ حکومت دواخانوں میں سینکڑوں بستر مریضوں کیلئے دستیاب ہونے کا دعوی کرتی ہے لیکن دواخانوں سے رجوع ہونے پر یہ کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ وہاںبستر موجود نہیں ہیں۔ اب ریاست کے سرکاری دواخانوں میں کسی کو داخل کروانا ایک جنگ جیتنے جیسا ہوگیا ہے ۔ سرکاری دواخانے میں داخلے کیلئے کسی رکن اسمبلی یا وزیر یا رکن پارلیمنٹ کی یا پھر کسی اعلی عہدیدار کی سفارش ضروری ہوگئی ہے ۔ اس کے بعد بھی دواخانے کا یہ حال ہی کہ ایک بستر پر ایک مریض فوت ہوجاتا ہے اور اس وقت تک اسے کوئی نہیں دیکھتا جب تک نعش سے بدبو نہیں محسوس ہوتی اور دوسرے مریض اس کی اطلاع نہیں دیتے ۔
اسی طرح دوسرا بڑا دواخانہ عثمانیہ دواخانہ ہے ۔ اس کی حالت کل ایک دن کی بارش میں ساری دنیا نے دیکھ لی ہے ۔ دواخانے کے وارڈز تالاب اور جھیل کا منظر پیش کر رہے تھے ۔ ایک سے دوسرے وارڈ کے راستے اور دوسری راہداریوں میں کچرا پڑا ہوتا ہے ۔ وہاں بھی مریضوں کے ساتھ ڈاکٹرس کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بلکہ ہتک آمیز ہوتا ہے ۔ اکثر یہ شکایات عام ہوتی ہیں کہ ڈاکٹرس وقت گذاری میں مصروف ہوتے ہیں اور مریضوں کی دیکھ بھال اور ان کے علاج پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ یہ درست ہے کہ سارا عملہ ایسا نہیںہوتا لیکن جو کوئی بھی ایسا ہوتا ہے اس کے تعلق سے حکومت خاموشی اختیار کرلیتی ہے ۔ دواخانوں میں علاج کو یقینی بنانا اور وہاں بہتر اور پاک صاف ماحول فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن کورونا کی وباء کے دوران جہاں سارے عوام خوف اور وحشت کے عالم میں ہیں حکومت اس اہم ترین شعبہ کو فراموش کرچکی ہے ۔ ایک عصری دواخانہ ٹمس کے نام سے قائم کیا گیا ہے لیکن وہاں ابھی علاج کی سہولت کا آغاز نہیں ہوا ہے ۔ دوسرے دواخانوں میں بھی عوام کو مشکلات کا اکثر وبیشتر انکشاف ہوتا رہتا ہے ۔ کہیں مریض کو بھرتی نہیں کیا جا رہا ہے تو کہیں علاج میں لا پرواہی برتی جا رہی ہے ۔ کہیں نعشیں دستیاب نہیں ہو رہی ہیں تو کہیں ایک نعش دوسرے کے رشتہ داروں کو سونپ دی جا رہی ہیں۔
یہ ساری صورتحال ایک طرح کی ہیلت ایمرجنسی جیسی پیدا ہوگئی ہے اس کے باوجود حکومت اس جانب توجہ دینے اور دواخانوں کی حالت کو سدھارنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے ۔ دواخانوں میں وارڈز جھیل کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ کچرے کے انبار پڑے ہوئے ہیں۔ تاہم حکومت کسی ذمہ دار سے جواب طلبی نہیں کر رہی ہے اور نہ ہی کسی کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے ۔ کورونا کی وباء کو پھوٹے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے اس کے باوجود چیف منسٹر نے کسی سرکاری دواخانہ کا دورہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور نہ ہی وہاں کے حالات کا انہوں نے بچشم خود معائنہ کیا ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کم از کم اب جبکہ دواخانوںکی حقیقت منظر عام پر آگئی ہے ‘ حرکت میں آئے اور دواخانوں کی حالت کو بہتر بنانے اور مریضوں کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرنے کیلئے عملی اقدامات کرے ۔