تمام مذاہب ’’اِنسانیت کے فروغ ‘‘کا ہی درس دیتے ہیں

   

سکھ ہیرٹیج فاؤنڈیشن حیدرآباد دکن اور ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا سمپوزیم
مذہب نہیں سکھاتا آپس میںبیر رکھنا

گرونانککی 550 ویںجینتی کے موقع پر 23 اور 24 ستمبر کو طلبہ میں تحریری، تقریری اور پینٹنگس کے مقابلے منعقد کئے گئے ۔ ان مقابلوں میں اول و دوم مقام حاصل کرنے والوں کو انعامات بھی تقسیم کئے گئے ہیں، اسی سلسلہ کی ایک کڑی 28 ستمبر 2019کو ایک سمپوزیم کا انعقاد ہے۔ سمپوزیم ٹھیک 10:30 بجے دن شروع ہوا۔ مہمانان و سامعین چلے آرہے تھے، موسم صاف تھا، مطلع ابر آلود بھی نہیں تھا، دھوپ چمکیلی تھی۔ باغ عامہ میں لوگ فرحت بخش اور تازہ ہوا لیتے ہوئے سمینار ہال میں دھیرے دھیرے قدم رنجہ فرما رہے تھے۔ سکھوں کی سربرآوردہ شخصیتیں بھی آچکی تھیں۔ ابتداء میں احمد علی سابق کیوریٹر سالار جنگ میوزیم نے خیرمقدمی کلمات ادا کئے۔ سردار اوتار سنگھ نے کہا کہ آج نزول گرونانک کا 550 واں جشن منایا جارہا ہے، ان کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا۔ 20 ممالک میں ان کی تعلیمات کی تبلیغ ہورہی ہے۔ سماج سے سماجی برائیوں کے انسداد کیلئے گرونانک کی تعلیمات اہمیت رکھتی ہیں۔ گرونانک کی تعلیمات نوجوانوں کیلئے مشعلِ راہ ہیں۔ پروفیسر ایس اے شکور نائب صدر ادارہ ہذا نے کہا کہ اقلیتی محکموں سے اور حکومتی اسکیمات سے اقلیتیں خاص کر سکھ طبقہ بھی بھرپور استفادہ کریں وہ سب میں شامل ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ گرونانک کی تعلیمات ساری انسانیت کیلئے ہیں۔ ان کا جشن 30 سال پہلے اسی ادارہ میں منایا گیا تھا پھر 550 واں جشن نزول منایا جارہا ہے، یہ خوش آئند عمل ہے۔اوتار سردار سنگھ شیشل نے مزید کہا کہ 550 ویں نزول گرونانک حیدرآباد میں ہورہا ہے یہ دراصل سچ کا پرچار کیا جارہا ہے، آتما وپرماتما کے رشتہ کو سمجھنا ہے۔ گرونانک ساری انسانیت کی فکر کرتے تھے، وہ آدمی کو انسان بنانا چاہتے تھے ۔ ہر انسان آپس میں بھائی بھائی ہے۔ نفس اور باطن کو صاف کرنا چاہیئے، باطن و نفس صاف و شفاف ہو تو تمام برائیاں ختم ہوجاتی ہیں، دلی سکون و آنند وقت کی ضرورت ہے۔ وہ محبت کا پرچار کرتے ہیں، انسانوں میں آپس میں محبت ہونی چاہیئے، نفرت کو ختم کرنا چاہئے۔ڈاکٹر مہیمن نے کہا کہ اکبر کے دور میں 1469ء میں گرونانک کی پیدائش ہوئی۔ دنیا داری کبھی بھی ختم ہوتی ہے،

دنیا کے عہدے عارضی ہیں ، سچائی اور ایمانداری کو عام کریں۔ گرونانک نے 60,000 کیلو میٹر پیدل سفر کرکے اپنی تعلیم کا پرچار کیا۔سردار نانک سنگھ نشتر نے کہا کہ خالقِ حقیقی کی عبادت کریں، توحید کا پرچار کریں ، گرونانک نے واحد خدا کی تعلیم کی تلقین کی ۔ اختلاف رنگ و بو سے چمن میں بات بنتی ہے، انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔ گرونانک نے بھی واحدانیت کے گُن گائے۔ سیاستداں ماحول خراب کرتے ہیں۔ انگریزوں نے نفاق پیدا کیا۔ سکھ تاریخ نہیں لکھے لیکن تاریخ بنائے ہیں۔ریکھا پانڈے پروفیسر حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے پاور پریزنٹیشن کے ذریعہ18 ویں صدی میں عورت کا موقف پر تفصیلی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ عورتوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا، عورت کا کوئی مقام نہیں تھا، 21 ویں صدی میں عورت بااختیار بنتی جارہی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی نمائندگی ملتی ہے۔ڈاکٹر رامیندر کور نے کہا کہ گرونانک نے ساری انسانیت کو وحدانیت کی تعلم دی ہے۔ انسانیت اور انسان کی عظمت کے قائل تھے۔ احمد علی سکریٹری ادارہ ہذا نے کہا کہ زبانوں کا آغاز آدم علیہ السلام کے دور سے ہوا، اللہ تعالیٰ نے آدم کو چیزوں کے نام سے واقف کروایا۔ آدم نے 300لغات ترتیب دی۔ 300زبانوں سے واقف تھے۔ زبانیں‘ مذہب اور تہذیب کے ارتقاء میں اہم رول ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر وکرم سنگھ ماسٹر نے گرونانک کی حیات اور افکار کا تفصیلی جائزہ لیا اور کہا کہ ان کی تعلیمات تمام طبقات کیلئے ہیں۔ ڈاکٹر دیش پانڈے نے کہا کہ دنیا میں صوفی، سَنتوں سے انقلابات آئے ہیں۔ گرونانک نے پوری انسانی آبادی کو وحدانیت اور سچ کی تعلیم دی ہے جس سے دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ سوچ گروپ کے سربراہ نے پاور پریزنٹیشن کے ذریعہ کہا کہ من کی صفائی ضروری ہے، من کو ہمیشہ پاک رکھنے سے خدا من میں اُترتا ہے۔ سچائی اور ایمانداری زندگی میں ضروری ہے اور ایسی زندگی سے انسانیت کا بھلا ہوتا ہے۔سردارنی تیج دیپ کور (آئی پی ایس ) DGP تلنگانہ ریاست نے کہا کہ آج عالمی یوم اساتذہ منایا جارہا ہے، میں نے بھی زندگی اور خاندان میں کئی ایک نشیب و فراز دیکھے ہیں ، انسان محنت سے محبت کرے تو ہر مشکل آسان ہوجائے گی۔ ڈگریاں لینے سے کچھ نہیں ہوگا قابلیت و صلاحیت اور اِسکل (Skill) اپنے میں پیدا کریں ۔ ترقی کی اسپرٹ ہر انسان میں ہونی چاہیئے۔ مثبت سوچ و فکر سے انسان آگے بڑھ سکتا ہے، سچائی اور سچ کا ساتھ دیں۔ گرونانک بھید بھاؤ اور غیرمساوات کو دور کرنا چاہتے تھے۔ گرونانک کی تعلیمات سے انسانیت کی تعمیر ہوسکتی ہے، وہ انسانیت کو سب سے بڑا مذہب مانتے تھے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے اور ہمدرد بنے۔
پروفیسر اشرف رفیع صدرنشین ادارہ ہذا نے اجلاس کی صدارت کی اور کہا کہ تمام مذاہب انسانیت کی بھلائی اور بہبود کی تلقین کرتے ہیں ۔ انسان ہی سب کچھ ہے انسانوں کو انسانیت کی قدر کرنی چاہیئے ۔ ڈاکٹر ناظم علی نے کہا کہ جو خود کو پہچانتا ہے وہ خدا کو پہچانتا ہے۔ ہر ایک کو چاہیئے کہ انسانیت کے دکھ اور درد کا مداوا کرے اور ان کے درد کادَرماں بنے۔
آخر میں احمد علی نے شکریہ ادا کیا اور دورِ حاضر میں اس طرح کے جلسوں کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایسے جلسوں سے سکیولر جذبات اور قومی یکجہتی پروان چڑھتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پہلے سے ہی اس طرح کے لائحہ عمل پر گامزن ہے ۔ اس طرح کی روایت کو عام کرنا چاہیئے ۔ اس موقع پرابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تمام عہدیدار و اراکین موجود تھے۔ شام 6 بجے سمپوزیم اختتام کو پہنچا۔٭