دہلی میں بدترین شکست کے بعد کانگریس کے لیڈران اعلی قیادت کے لئے موجودہ خلاء کو دور کرنے کے لئے فوری کاروائی پر زور دے رہے ہیں۔ ششی تھرور نے ٹی او ائی کو بتایا کہ کانگریس کا اس خیال کو ختم کرنا کیوں ضروری ہوگیا ہے کہ پارٹی بہت پرسکون او ربے فکر ہے۔
کیاراہول نے جیسا کہا ہے کہ کانگریس لیڈر کو ایک غیر گاندھی ہونا چاہئے
میں سمجھتاہوں کہ سوال یہ نہیں ہے کہ اگلے صدر کانگریس کا گاندھی فیملی سے ہونا چاہئے یا نہیں ہے‘
کیونکہ یہ بڑی تشویش سے باہر ہے‘کیونکہ کانگریس ملک کے لئے ناگزیر ہے تاکہ بی جے پی حکومت کی تقسیم کرنے والی پالیسیوں کے خلاف اتحاد کے لئے ملک کو متبادل پیش کرسکے۔
ہمیں راہول گاندھی کے استعفیٰ کے بعد جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کوپر کرنے کے لئے نئے صدر کی تلاش خود سے کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘
اس کو بلاکسی تاخیر کے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ میری خواہش تھی کہ وہ استعفیٰ پیش نہ کریں۔
مگر وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں تو ہمیں ایک پورے وقت دینے والی قیادت کی تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ پارٹی کو آگے لے جایاجاسکے۔ایسا کرنے کے لئے ہمیں جمہوری مشق کی حصہ داری کو روبعمل لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ امیدوار سامنے آسکے جس پر تنظیمی معاملات اور درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے بھروسہ کیاجاسکے۔
یقینا اگر کوئی گاندھی فیملی سے الیکشن میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کا کھل کر خیر مقدم کیاجائے گا۔
مگر میں چاہتاہوں کہ اس میں دیر نہ کی جائے۔ فوری طور پر ہمیں ان تاثرات کو پرسکون اور بے فکری کے عالم سے باہر ہوکر حل کرنے کی ضرورت ہے
کتنے جلدی اس قیادت کی تبدیلی کے اس عمل کو پورا کرنا چاہئے؟
عوام اور میڈیاکو اس کی ترجیحات پر بات کرنے کی ضرورت ہے‘ جو دہلی میں ہماری شکست کی شدت سے ظاہر ہوتا ہے‘
اس پر تیزی کے ساتھ لکھنے کی ضرورت ہے۔ ان نتائج سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے مزید طویل حدتک ہم اس سونچ کو آگے نہیں لے جاسکتے ہیں۔ بہت سارے ریاستی الیکشن اور چار سال میں قومی انتخابی مہم درپیش ہے‘
یہ وہ وقت نہیں ہے جس میں آرام سے بیٹھیں اور ’مستقبل کو نظر‘ انداز کردیں
کانگریس کو کیا پرینکا گاندھی واڈرا کو امیدوار کے طور پر دیکھنا چاہئے؟
یہ کسی فرد کے متعلق نہیں ہے۔
جب الیکشن کااعلان کیاجائے گاتو مجھے پوری امید ہے کہ وہ بھی اپنا نام دوڑ میں شامل کریں گیں۔ ان کے لئے میں اتنا ضرور کہوں کہ ان کے پاس قدرتی کرشمہ ہے اور لوگوں کو انہوں نے انجہانی اندرا گاندھی سے ان کا موزانہ کرنے پر مجبور کیا ہے‘
کو یقینا پارٹی کارکنو ں اور رائے دہندوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوں گی۔
اس کا تجرنہ تنظیمی طور پر بھی آتا ہے۔ مگر آخر کار یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا جس کا ہمیں احترام کرنا ہوگا۔