کشمیر ویران اور جموں میں خاموشی
نئی دہلی۔ بطور یونین ٹریٹری جمعرات کے روز شروعات کے ساتھ جموں اور کشمیر غم میں متحددیکھائی دے رہا تھا۔
مذکورہ نئی یونین ٹریٹری کے لیوٹنٹ گورنر جی سی مارمو نے سری نگر کے راج بھون دفتر میں حلف لیا‘ جس کے پیش نظر بھاری چوکسی اختیار کی گئی تھی اور وادی کے مختلف حصوں میں تشدد کے کئی واقعات بھی پیش ائے۔
چیف جسٹس آف جموں اور کشمیرہائیکورٹ گیتا متل نے حلف دلایا۔ گجرات کیڈر کے 1985بیاچ کے ائی اے ایس افیسر مارمو نے ہندی میں حلف لیا۔ حلف لینے کے بعد ایل جی نے گارڈ آف انر کا معائنہ کیا اور ان سے سلامی لی۔
تقریب میں شرکت کرنے والے ایک افیسر نے کہاکہ ”حلف برداری تقریب میں سناٹا چھایاہوا تھا۔ شرکت کرنے والے زیادہ تر لوگ افسران تھے۔
صرف ایک ہی معروف سیاسی لیڈر(پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی کے راجیہ سبھا رکن نظیراحمد لاوے) کے علاوہ جو موجود تھے وہ تمام بی جے پی کے قائدین تھے“۔
زیادہ تر میڈیاکو مدعو ہی نہیں کیاگیاتھا۔ کشمیرکی سڑکیں ویران تھیں اور جموں میں بھی کسی قسم کا جشن نہیں تھا۔ وادی کے مختلف مقامات پر جھڑپوں کے واقعات بھی رونما ہوئے۔
سرکاری دفاتر میں ملازم کی حاضری کافی کم تھی۔ اس کے علاوہ صرف ایک ہی ضلع تھا جہاں کے لوگ جشن کے موڈ میں تھے وہ لداخ کا صلع لیح تھا‘ جس کو بھی ایک یونین ٹریٹری میں تبدیل کردیاگیاہے۔ مسلم اکثریت والے کارگل اور لداخ کے دیگر اضلاعوں کے لوگ خوش نہیں تھے۔
یونین ٹریٹری لداخ کے ایل جی کی حیثیت سے رادھا کرشنا ماتھر نے حلف لیا۔ جموں اورکشمیر کے خصوصی موقف کو برخواست کرنے اور اس کو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے متعلق 5اگست کے روز مرکزی حکومت کی جانب سے لے گئے فیصلے کے بعد پچھلے تین ماہو سے وادی میں بند ہے۔
نیشنل کانفرنس کے ایک ترجمان نے کہاکہ ریاست کی زبردستی تقسیم”نہ تو اتحاد تبدیل کرے گی‘ جمو ں او رکشمیر کے انفرادی اور مجموعی کردار کو بدل سکے گی اور نہ ہی کشمیر کا مسئلے حل کیاجاسکے گا“۔
سابق چیف منسٹر محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے کہاکہ کشمیری”جموں کشمیر کے نسل کشی پر غم زدہ ہیں“ انہوں نے ریاست کی تقسیم کاحوالہ دیاتھا۔