جنگ بھی ہماری نقصان بھی ہمارا

   

محمد مصطفی علی سروری
یہ سال 2009ء کی بات ہے جب ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے ملزم اجمل قصاب نے آرتھر جیل کے انتظامیہ سے اپنے لیے لذت دار کھانوں اور باسمتی چاول فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 7؍ستمبر 2009 کو اپ ڈیٹ کی گئی ایک خبر میں News18 نے آرتھر جیل کے سپرنٹنڈنٹ راجندر دھامنے کے حوالے سے لکھا کہ جیل میں مٹن بریانی کا مطالبہ کرنے کے بعد اب اجمل قصاب نے لذت دار کھانوں کے ساتھ باسمتی چاول فراہم کرنے کا مطالبہ کردیا اور جب قصاب کو اس کی من پسند غذائیں فراہم نہیں کی گئیں تو اس نے جیل کے اسٹاف کے ساتھ غلط برتائو شروع کردیا۔
قارئین اجمل قصاب کی جانب سے جیل میں بریانی فراہم کرنے کا مطالبہ کے بعد ملک گیر سطح پر اور خاص کر پرائم ٹائم کے دوران نیوز چیانلس پر مسلسل مباحثہ ہوئے اور اس وقت کی مرکزی حکومت کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ حکومت دہشت گردوں کو جیل میں مٹن بریانی کھلاتے ہوئے ان کے ساتھ نرم سلوک روا رکھتی ہے۔
ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 21؍ نومبر 2012ء کی صبح اجمل قصاب کو بالآخر پھانسی دے دی گئی۔ بظاہر تو دہشت گردی کے ایک باب کا اجمل قصاب کو پھانسی کے ساتھ اختتام عمل میں آیا لیکن سال 2015ء کے دوران ایک ایسا انکشاف سامنے آیا جس نے اجمل قصاب اور ہندوستانی میڈیا کو ایک مرتبہ پھر سے خبروں میں موضوع بحث بنادیا۔
جی ہاں قارئین یہ مارچ 2015ء کی بات ہے جب راجستھان کے شہر جئے پور میں انسداد دہشت گردی کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی جس میں اُجول نکم ایڈوکیٹ بھی شریک تھے۔ جی یہ وہی اجول نکم ہیں جو اجمل قصاب کے خلاف عدالت میں سرکاری وکیل تھے۔ اس کانفرنس کے دوران انہوں نے ایک بیان دیا کہ ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے ملزم اجمل قصاحب نے آرتھر جیل میں کبھی بھی مٹن بریانی کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ اجول نکم کے الفاظ میں یہ تو ایک جھوٹی من گھڑت بات تھی جو ہم نے دانستہ طور پر پھیلائی تاکہ دہشت گرد اجمل کے حق میں کسی کو ہمدردی پیدا نہ ہو۔ قصاب نے نہ تو کبھی بریانی مانگی تھی اور نہ ہی کبھی اس کو بریانی کھلائی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک دن قصاب کمرہ عدالت میں آنسو بہایا تھا تومیڈیا نے اس سے ہمدردی کا ماحول پیدا کردیا تھا کہ راکھی کے تہوار کے دن قصاب اپنی بہن کو یاد کر کے رو رہا تھا۔ بعض لوگوں نے یہ تک کہہ دیا کہ کیا قصاب واقعی دہشت گرد ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے عوامی ہمدردی کے جذبات کو روکنے کے لیے ہی میں نے میڈیا کے روبرو ایک بیان دے دیا کہ اجمل قصاب نے کھانے کے لیے جیل میں مٹن بریانی مانگ رہا ہے۔ اُجول نکم نے مزید کہا کہ ان کے اس بیان کے بعد میڈیا میں دوبارہ بحث و مباحثہ شروع ہوگیا کہ اجمل قصاب جیسے خونخوار دہشت گرد نے جیل میں بریانی کھانے کا مطالبہ کردیا۔ جب کہ حقیقت میں نہ تو اس نے بریانی مانگی اور نہ ہی کسی نے اس کو جیل میں بریانی کھلائی۔ (بحوالہ۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا۔ 20؍ مارچ 2016)
پبلک پراسیکیوٹر اجول نکم نے جو من گھڑت بیان اجمل قصاب کے ساتھ جوڑ کر میڈیا میں دیا اس کو میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس قدر تماشہ کھڑا کردیا کہ لوگ آج بریانی کو پاکستانی دہشت گردوں سے جوڑ دیتے ہیں۔‘‘ جیسا کہ سجاتا آنند نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا جو کہ 25؍ مارچ 2015 کو ہندوستان ٹائمز اخبار میں شائع ہوا تھا۔ اجول نکم لوگوں کی توجہ دوسرے موضوعات سے ہٹانے کے لیے ہی بیان دے کر میڈیا کے لیے بھی خوب مصالحہ فراہم کردیا تھا۔

قارئین آج کے اس کالم میں میں دراصل تبلیغی جماعت کے حوالے سے میڈیا کی جانب دارانہ اور فرقہ وارانہ رول کے متعلق گوش گذار کرنا چاہتا تھا۔
سال 2015ء میں اجمل قصاب کی بریا نی مانگنے کے جھوٹ کا پردہ بھی اس وقت فاش ہوا جب خود سرکاری وکیل نے فخریہ طور پر اعتراف کیا کہ میڈیا کی توجہ ہٹانے کے لیے اس نے جھوٹ بولا تھا لیکن اُجول نکم کے جھوٹ کو پھیلانے کے لیے کن لوگوں نے مدد کی اس کا تجزیہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔
قارئین اجمل قصاب کی جانب سے جیل میں بریانی مانگنے کے متعلق سب سے پہلے خبر اگست 2009ء میں خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا PTI کی جانب سے جاری کی گئی تھی۔ اس خبر کو اخبار ٹائمز آف انڈیا اور انڈیا ٹوڈے نے شائع کیا اور میڈیا کا رول ملاحظہ فرمائیں کہ نیوز لانڈری میں شائع منشا پانڈے کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی اس خبر میں جیل کے انتظامیہ کے حوالے دیئے گئے۔ اخبار DNA نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر پی ٹی آئی کی خبر میں اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ اجمل قصاب ہفتہ میں دو مرتبہ نان ویجیٹیرین کھانا اور بریانی کی مانگ کر رہا ہے۔
اس پہلی خبر کی اجرائی کے ایک ہفتہ بعد ہی PTI نے ہی دوسری خبر اجمل قصاب کے حوالے سے جاری کی کہ اس دوسری خبر میں اجمل قصاب کے متعلق بتلایا گیا کہ بریانی کے بعد اجمل قصاب نے کھانے کے لیے باسمتی کے چاول کی فرمائش کردی ہے۔
اجمل قصاب کے خلاف جس طرح سے ٹھوس شواہد اور گواہ موجود تھے اس کے پس منظر میں اس کا پھانسی کی سزا پانا طئے تھا لیکن اجمل قصاب کے متعلق ایک سرکاری وکیل نے میڈیا کا بری طرح غلط استعمال کرتے ہوئے یہ بات ثابت کردی کہ میڈیا ہمیشہ سچ کی ترجمانی نہیں کرتا ہے اور غلط رپورٹنگ ٹائمز آف انڈیا سے لے کر پریس ٹرسٹ آف انڈیا جیسی قومی خبر رساں ادارہ بھی کرتے ہیں۔

آج جو مسلمان تبلیغی جماعت کے میڈیا ٹرائل پر اظہار خیال کر رہے ہیں وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ میڈیا خاص کر الیکٹرانک میڈیا ہمارے ملک ہندوستان میں پرنٹ میڈیا کے مقابل بڑی چھوٹی تاریخ رکھتا ہے اور گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ٹیلی ویژن کے خانگی نیوز چیانلس نے جس بڑے پیمانے پر اور جس بری طریقے سے مسلمانوں کی شبیہہ کو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی سوشیل میڈیا اور اردو اخبارات اور اردو کے چند چینلس پر بیانات اور پریس نوٹ شائع کرواکر نہیں ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ مولانا حضرات ٹیلی ویژن کے مباحثوں میں حصہ لینا اور سوشیل میڈیا کا دینی مدارس کے فارغین کی جانب سے بڑے پیمانے پر استعمال بھی اس مسئلے کا حل نہیں ۔ میڈیا اور خاص کر خبر رسانی کا کام ایک پروفیشن ہے۔ اس پروفیشن میں مسلمانوں کو اپنے سوسائٹی کا کریم بھیجنا ہوگا۔ ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کو جس طرح ڈاکٹر انجینئر اور سیول سرونٹ بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً مہم چلائی جاتی ہے اور گذشتہ تین سے چار دہائیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ویسی ہی مہم مسلمانوں کے قابل، سنجیدہ اور اعلیٰ ترین ذہانت کے حامل نوجوانوں کو میڈیا کے میدان میں تربیت دے کر بھیجنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جزوقتی عالمیت کا کورس کر کے کوئی دین اسلام کے متعلق ضروری مسائل سے آگہی تو حاصل کرسکتا ہے مگر کل وقتی عالم دین کا متبادل نہیں بن سکتا ہے۔ ایسے ہی سوشیل میڈیا پر لفاظی کے ذریعہ یا اپنے موبائل فون سے ویڈیو بناکر مودی کے چہرے سے نقاب اتارنے کادعویٰ کرنے والے میڈیا کی فیلڈ میں مسلمانوں کے مفادات کی نگہبانی کا کام نہیں کرسکتے۔
قارئین اس نکتہ کو ذہن نشین کرلیں کہ میڈیا میں مسلمانوں کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کا مفاد مودی کی مخالفت میں نہیں بلکہ اپنے مقاصد کی اور اہداف کی تکمیل میں ہے۔ یاد رکھئے، سوشیل میڈیا کے ذریعہ سے بی جے پی یا مودی یا آر ایس ایس کی مخالفت میں کلپس بنانے والے کسی کا کچھ تو نہیں بگاڑ رہے ہیں بلکہ موجودہ حکمراں طبقے کے حق میں اکثریتی رائے عامہ کو تشکیل دینے کا کام کر رہے ہیں۔میڈیا نے جب کورونا وائرس کو تبلیغی جماعت کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا تو زمینی صورتحال کس قدر بگڑ گئی شائد شہروں میں رہنے والے اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔

اخبار انڈین ایکسپریس نے 7؍ اپریل کو کرناٹک کے گائوں منڈیا سے خبر دی کہ وہاں پر مسلمانوں کے متعلق ایسی غلط فہمی پھیل گئی کہ ایک مسلمان کی راشن کی دوکان سے خریداری کرنے والے سبھی لوگ اپنے اپنے نوٹوں اور پیسوں کو پانی سے دھونے لگے ہیں۔ وجہہ پوچھنے پر ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ نوٹ ایک مسلمان کے ہاتھ کو چھوکر گذرے ہیں۔ تو اس کے سبب نوٹوں کے ساتھ کورونا وائرس بھی ہوسکتا ہے تو ہم لوگ حفاظتی تدبیر کے طور پر یہ اقدام کر رہے ہیں۔
مسلمان ہندوستان میں کورونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں اس طرح کا پروپیگنڈہ اپنا اثر دکھاچکا ہے۔ مہاراشٹرا سے ہی ایک خبر آئی ہے کہ وہاں پر مرغیوں کے فارم ہائوز میں مالکان اور تاجران مسلمان کام کرنے والوں کو اپنے ہاں داخلہ سے منع کر رہے ہیں۔ حالانکہ کورونا وائرس کی بیماری کو مرغیوں سے منسوب کرنے پر پولٹری صنعت پہلے ہی نقصان سے دوچار ہے۔ اس کے باوجود پونے سے انڈین ایکسپریس اخبار نے 7؍ اپریل کو ہی خبر دی کہ وہاں پر پولٹری صنعت کی سربراہی میں اس وقت مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگیا جب اس صنعت سے جڑے پولٹری فارمرس نے اپنے ہاں ایسے ٹرکس کو لانے سے منع کردیا جن کے ڈرائیورس مسلمان ہیں اور قارئین انہی ٹرکس میں بھر کر مرغیوں کو بازار میں پہنچایا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے اور مسلمان ان چیانلس کو برا بھلا بول کر بائیکاٹ کی اپیل کر کے خوش ہیں۔ ہمیں تو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ وہ کام کرنا ہے جو میڈیا کرتا ہے مگر بغیر کسی جانبداری اور پوری ایمانداری کے ساتھ کرنا ہے۔ یہ کوئی جزوقتی مشغلہ نہیں ہے کہ وقت نکال کر یوٹیوب کے لیے کچھ مواد تیار کرلیں یا فیس بک پر ایک جذباتی پوسٹ لگادیں۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور ذرائع ترسیل و ابلاغ کی اہمیت کو سمجھ کر اس کے صحیح استعمال کی توفیق نصیب کرے۔ (آمین)
کیونکہ یہ جنگ بھی ہماری ہے اور اس میں نقصان بھی ہمارا ہی ہو رہا ہے۔ اس لیے اس جنگ میں جزوقتی سپاہیوں کی نہیں کل وقتی سپاہی چاہیے۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]