جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ ریاست میں پانچ مراحل میں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ 81 رکنی اسمبلی کیلئے پہلا مرحلہ 30 نومبر کو ہوگا جبکہ نتائج کا اعلان 23 ڈسمبر کو ہوگا ۔ اس طرح انتخابات کا عمل تقریبا دو مہینوں تک جاری رہے گا ۔ جھارکھنڈ جیسی چھوٹی ریاست میں پانچ مراحل میں اسمبلی انتخابات کا اعلان قابل فہم نہیں کہا جاسکتا حالانکہ الیکشن کمیشن نے سکیوریٹی دستوں کی تعیناتی اور دستیابی کو وجہ بتایا ہے تاہم ابھی حال ہی میں مہاراشٹرا اور ہریانہ میں ایک ہی دن میں رائے دہی منعقد ہوئی تھی ۔ مہاراشٹرا بڑی ریاست ہے جہاں 288 ارکان اسمبلی ہیں۔ تاہم یہ الیکشن کمیشن کا اختیار تھا جس نے پانچ مراحل میں رائے دہی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اب جبکہ ریاست میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوگیا ہے ریاست میں انتخابی سرگرمیاں شدت اختیار کر جائیں گی ۔ اب تک بھی بی جے پی حکومت کی جانب سے مختلف طریقے عملا انتخابی مہم شروع کرنے کے شروع کردئے گئے تھے اور چیف منسٹر رگھوبار داس ریاست کا دورہ کرچکے ہیں تاہم باضابطہ انتخابی مہم شروع ہونے ابھی تقریبا دو ہفتوں کا وقت ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنے آپسی اتحاد کو قطعیت دینے اور نشستوں کی تعداد پر مول بھاو کے بعد امیدواروں کو قطعیت دینے میں مصروف ہونگی اور پھر انتخابی مہم کا آغاز کیا جائیگا ۔ جھارکھنڈ میں اپوزیشن جماعتوں کیلئے موقع ہے کہ وہ بی جے پی حکومت کو ناکام بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوجائیں۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اپوزیشن کو نئے عزم و حوصلے کے ساتھ میدان میں آنے کی ضرورت ہے ۔ ہریانہ میں اپوزیشن کی مہم جارحانہ نہیں تھا ‘ مہاراشٹرا میں شرد پوار کی این سی پی نے قدرے جوش دکھایا تھا اور کانگریس جوش سے عاری تھی ۔ اس کے باوجود برسر اقتدار اتحاد کی پیشرفت کو روک لگانے میں اپوزیشن کو کامیابی ملی تھی ۔ جھارکھنڈ میں اب جھارکھنڈ مکتی مورچہ ‘ کانگریس اور کچھ حد تک آر جے ڈی کی ذمہ داری ہے کہ وہ بی جے پی حکومت کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے مشترکہ ایجنڈہ کے تحت متحد ہوجائیں اور مقابلہ کیا جائے ۔
جھارکھنڈ میں جو علاقائی جذبات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اتحاد کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی جماعت کو اپنے ذاتی مفاد یا پھر سیاسی فائدہ کو ترجیح دینے سے گریز کرنا چاہئے ۔ بی جے پی کی مسلسل کامیابیوں پر بریک لگانے کیلئے ہر جماعت کو کچھ حد تک قربانی دینے اور مشترکہ مقصد کی تکمیل کیلئے جٹ جانے کی ضرورت ہے ۔ اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر اور پورے جوش و جذبہ کے ساتھ میدان میں اتریں۔ ایک منظم حکمت عملی کے تابع انتخابی مہم کا ایجنڈہ تیار کریں اور مرکزی اور ریاستی حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کریں تو کوئی عجب نہیں کہ وہاں کے نتائج اپوزیشن کیلئے حوصلہ افزاء ہوں۔ جس طرح سے ملک بھر میں معاشی سست روی کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں ان کو عوام میں پوری شدت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا میں جس طرح سے بی جے پی نے دفعہ 370 کی تنسیخ کا مسئلہ موضوع بنایا تھا تاہم اسے خاطر خواہ عوامی تائید حاصل نہیں ہوئی اور اس کی نشستوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ متنازعہ مسائل پر کسی تبصرے کے ذریعہ خود کٹہرے میں آنے کی بجائے اپوزیشن جماعتیں معاشی محاذ کو موضوع بنانے میں اگر کامیاب ہوجاتی ہیں تو بی جے پی کیلئے عوام کی تائید حاصل کرنا آسان نہیں رہ جائے گا ۔ عوام کی حکومت سے معاشی ناکامیوں اورسست روی پر سوال کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ۔ اس سے حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔
ہریانہ اور مہاراشٹرا میں بی جے پی کو سمجھوتوں کیلئے مجبور کرنے کے بعد اب اپوزیشن کیلئے موقع ہے کہ وہ جھارکھنڈ میں اپنے موقف کو مزید مستحکم کریں۔ اگر اپوزیشن اتحاد جھارکھنڈ میں بی جے پی کو روکنے اور اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر بہار اسمبلی انتخابات کیلئے بھی اپوزیشن کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح ملک کی دوسری ریاستوں کیلئے بھی حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے ۔ آئندہ کی کامیابیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے جھارکھنڈ میں ہر جماعت کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ اگر اپوزیشن جماعتیں حقیقی معنوں میں متحدہ مقابلہ کریں تو حیرت انگیز نتائج حاصل کرنا نا ممکن نہیں رہے گا ۔
