جی ایس ٹی۔ ٹیکس دہشت گردی عوام کی قوت برداشت قابل تعریف

   

روش کمار
ملک میں بھیانک مہنگائی، بیروزگاری، خطرناک حد تک بڑھتی فرقہ پرستی، تعصب و جانبداری، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ستانے ڈرانے دھمکانے پر اگرچہ عوامی سطح پر ملک اور بیرون ملک حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے مصروف تنظیموں و اداروں میں تشویش تو پائی جاتی ہے لیکن ان مسائل کا حل نہیں نکالا جاتا کیوں کہ جس کام میں حکومت اور سرکاری اداروں خاص کر نفاذ قانون کی ایجنسیوں کا تعاون و اشتراک حاصل نہیں ہوتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ غرض ہندوستان کو حقیقت میں پہلے جیسا جنت نشان ہندوستان بنانے کے لیے پیار و محبت باٹنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کے گزشتہ چند دہوں سے ہمارے ملک میں نفرت بانٹی جارہی ہے اور نفرت کی اس سوداگری کے باعث ملک کو درپیش سنگین مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اس کے برعکس ہر روز کوئی نہ کوئی مسئلہ چھیڑا جارہا ہے۔ مودی حکومت نے سارے ملک میں جی ایس ٹی (گڈس اینڈ سرویس ٹیکس) تو متعارف کروایا لیکن عوام کو مہنگائی، بیروزگاری اور غریبی کے مار سے نہیں بچاپائی۔ ہم یہاں جی ایس ٹی کی بات کرتے ہیں۔ آپ کو بتاتے ہیں کہ جی ایس ٹی صرف ایک ٹیکس نہیں ہے بلکہ جی ایس ٹی اور بھی بہت کچھ ہے۔ آج عوام صرف جی ایس ٹی کی مخالفت نہیں کررہی ہے بلکہ جی ایس ٹی بھی مودی جی کی مخالفت کررہی ہے۔ مثال کے طورپر پاپ کارن پر ایک ٹیکس نہیں ہے لیکن مودی جی ون نیشن ون الیکشن کرنا چاہتے ہیں۔ ایک معمولی پاپ کارن پر ان سے ایک قسم کا ٹیکس عائد نہیں ہوپارہا ہے، تین تین قسم کی جی ایس ٹی ہے اب پورے ملک میں قسم قسم کے چنائو ختم کر ایک چنائو کرنے نکل پڑے ہیں۔ خواب تقسیم کررہے ہیں خواب جسے ہندی میں سپنا کہتے ہیں۔ جی ایس ٹی کا نام لیتے ہی ہم ہندوستانی سینما کے پردہ کی طرح خوابوں کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جی ایس ٹی ایک موضوع بن گیا ہے جیسے ہندی سینما میں محبت ایک موضوع ہے گیت کار کسی بھی دور کا کیوں نہ ہو کسی بھی ضلع کا ہو لدھیانہ کا ہو یا بدایوں کا ہو اُسے محبت پر لکھنا ہی ہوگا۔ اسی طرح آپ ووٹر کس کے بھی ہوں کانگریس کے ہوں یا بی جے پی کے آپ کو جی ایس ٹی کا دکھ برداشت کرنا ہی ہوگا۔ اس کا درد اتنا گہرا ہے کہ ہر درد برداشت کرنے والے کو جی ایس ٹی پر خود شاعری آنے لگ جاتی ہے جو شعر نہیں لکھ پارہے ہیں وہ عجیب و غریب شاعری کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور جو اپنی بات شعر و شاعری کے ذریعہ نہیں کہہ پا رہے ہیں وہ جی ایس ٹی کو لے کر کامیڈی کرنے لگ جارہے ہیں۔ اگر آپ جی ایس ٹی سے پریشان ہوکر نجومی کے پاس جانا چاہتے ہیں تو خبردار نجومیوں پر بھی جی ایس ٹی عائد کئے جانے کی خبر منظر عام پر آئی ہے۔ پربھات خبر کی ایک سرخی کو دیکھ کر میری تو ڈیتھ ہوگئی جی۔ لکھا ہے جی ایس ٹی گھڑی اور جوتوں پر شنی کی مہا دیشا، جی ایس ٹی کونسل کی 55 ویں میٹنگ میں بڑھ سکتا ہے ٹیکس۔ میڈیا کی زبان بھی عجیب و غریب ہوتی جارہی ہے۔ ’’شنی وار کو اس کی میٹنگ ہونے والی ہے تو اخبار نے ’’شنی کی مہادیشا‘‘ لکھ دیا۔ جی ایس ٹی کی پہچان، شنی کی مہادیشا سے کی جانے لگی ہے۔ لوگوں کی زبان یہاں بہت اہم ہے۔ ٹیوٹر پر لطیفے بنانے والے لوگ چالاک قسم کے ہیں وہ مخالفت کرنا چاہتے ہیں لیکن مخالفت کی زبان نہیں بول پاتے۔ لطیفے کی زبان میں جی ایس ٹی کی مخالفت کررہے ہیں۔ پروٹسٹ کو پاسٹ ٹائم میں تبدیل کردیا ہے۔ ان ہشیار چالاک لوگوں کو پتہ ہے کہ سیدھے سیدھے ہائے ہائے کریں گے، مخالفت کریں گے تو اسی وزارت سے جہاں سے جی ایس ٹی نافذ کیا جاتا ہے وہیں سے ای ڈی بھی لگتی ہے اسی لیے لوگ کارٹون بناکر جی ایس ٹی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ہندوستان کی تقدیر سنوارنے والا کون ہے۔ اس کا جواب مل گیا ہے۔ رائے دہندہ۔ ہندوستان کی تقدیر سنوارنے والا نہیں ہے۔ کرداتا بھاگ ودھاتا ہے۔ جی ایس ٹی نے ہر ہندوستانی کو مجبور و بے بس بنائے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ تعلیم یافتہ لوگ الجھن میں مبتلا ہیں کہ وہ کب کرداتا بنیں ہے۔ جی ایس ٹی وہ ٹیکس ہے جو ہر کرداتا کو کچھ نہ کچھ بنادیتا ہے اس کے نتیجہ میں فقیر بھی راجہ کی طرح خود کو محسوس کررہا ہے اور راجہ بھی گداگر کی طرح۔ جس کے پاس جھولا ہے وہ بینک سمجھ رہا ہے اور جس کے پاس بیاگ ہے وہ جھولا سمجھ رہا ہے اور جو کچھ نہیں سمجھ پارہا ہے وہ ہجوم میں شامل ہورہا ہے۔ باغی بن کر ٹرینڈ کررہا ہے۔ وہ ٹویٹر پر جاکر ٹیکس ٹیررزم نام سے ٹرینڈ کروانے میں شامل ہوگیا ہے۔ دہشت گرد کی تشریح کرنے والا خطاب اب تو مودی جی نے بھی بند کردیا ہے لیکن ان کی عوام Tax Terrorism نام کا ٹرینڈ چلارہی ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں جس طرح بہتری کا کوئی امکان نہیں اسی طرح جی ایس ٹی میں بھی اب کوئی بہتری کا امکان باقی نہیں رہا۔ آکار پٹیل نے جی ایس ٹی کا ایک نئی شکل میں تصور کیا ہے۔ کہا ہے کہ اب جی ایس ٹی پر جی ایس ٹی لگا دینا چاہئے۔ لوگوں کی سوچ دیکھئے جی ایس ٹی کی وجہ سے کہاں تک جاری ہے اور جہاں بھی جارہی ہے لوٹ کر جی ایس ٹی پر ہی آرہی ہے۔ جی ایس ٹی وہ محبوبہ ہے جس کے عشق میں مبتلا ہوکر ہندوستان کے کرداتا چھٹ پٹارہے ہیں۔ وہ اپنی محبوبہ جی ایس ٹی سے شادی کی امید رکھتے ہیں۔ آزادی چاہتے ہیں مگر اس دنیا میں انہیں آزادی نہیں ملے گی۔ لڑکوں پر بنائی گئی محبوبہ کے انتظار کی تصویر اب بدل گئی ہے۔ جی ایس ٹی کا مارا ان کا عاشق اب بسکٹ بھی لانے کے قابل نہیں رہا۔ ہندوستانیوں کو مہنگائی پریشان نہیں کرپائی۔ 95 روپئے فی لیٹر پٹرول کی قیمت پریشان نہیں کرپائی۔ کھاد کی قیمت پریشان نہیں کرپائی۔ بیروزگاری پریشان نہیں کرپائی۔ ایسے صبر و تحمل اور غیر معمولی قوت برداشت کے حامل ہندوستانیوں کو جی ایس ٹی نے پریشان کردیا ہے۔ ایسا مت کہئے گا کہ آپ کے لطیفے آپ کی شاعری ٹرول میں ڈھال کر وزیر فینانس تک نہیں پہنچ رہے ہیں۔ پہنچ رہے ہیں۔ وزیر فینانس کو ٹرول مت کیجئے۔ جی ایس ٹی آپ کو ٹرول کررہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ وزیر فینانس کو ٹرول کریں اتنا ٹیکس دینے کا فائدہ ملک کو ضرور ہوتا ہے۔ آپ کے پاس پیسے نہیں بچ پاتے آپ کنگال ہونے لگ جاتے ہیں۔ کنگالی آپ کو اندر سے خالی کرتی ہے اور اس خالی جگہ کو بھرتا ہے آپ کا غصہ، آپ کی برہمی اور یہ غصہ و برہمی آپ کے ہاتھوں میں کدال دیتے ہیں جسے لے کر کر آپ مسجد کے نیچے مندر کی تلاش میں چلے جاتے ہیں۔ آج مسجد کی کھدائی کے لیے ایک ہندوستانی نہیں ملتا اگر جی ایس ٹی نے اس کا ایسا حال نہیں کیا ہوتا۔ اس لیے جی ایس ٹی کی مخالفت مذہب پر مبنی سیاست کی مخالفت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جی ایس ٹی پر مضمون اور ’’شاعرانہ کلام‘‘ ہندوستان کے عام لوگوں نے جی ایس ٹی کا بوجھ جس طرح اپنے سر پر اٹھایا ہے اس طرح سے کبھی گھر کا سامان نہیں اٹھایا ہوگا۔ اگست 2016ء میں عزت مآب مودی جی نے لوک سبھا میں کہا کہ جی ایس ٹی سے ٹیکس دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ صارف، راجہ ہوجائے گا لیکن ان کا صارف راجہ نہیں کنگال نظر آنے لگا ہے۔ اس نے خریدی چھوڑ دی ہے۔ خریدتے ہی جتنے کا سامان نہیں آتا اس سے زیادہ کا ٹیکس چلاجاتا ہے۔ 30 جون 2017ء کو آدھی رات کے وقت پارلیمنٹ اجلاس طلب کرکے جی ایس ٹی لاگو کیا گیا۔ وزیراعظم مودی نے اس رات 15 اگست 1947ء کی یاد دلائی اور کہا کہ یہ آدھی رات میں ٹیکس دہشت گردی سے آزادی ہے۔ یہ دن ملک کے مستقبل کا تعین کرنے کے لحاظ سے ایک اہم موڑ ہے۔ انہوں نے تو جی ایس ٹی کو ایک نئی شکل دی۔ گڈس اینڈ سمپل ٹیکس کہا تھا جیسے سردار پٹیل نے ملک کو سیاسی طور پر متحدہ کیا اسی طرح جی ایس ٹی معاشی اتحاد کو یقینی بنایا ایسا کچھ کہا تھا۔ کہاں تو پاپ کارن پر ایک جی ایس ٹی طے نہیں اور کہاں وزیراعظم کے یکسانیت یا یکساں ہونے کے خواب دکھارہے تھے لیکن یکسانیت کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ خواب بھی ایک ہی دکھا رہے تھے تب تو وہ جی ایس ٹی کی مدد سے دہشت کو مٹارہے تھے اور ماحول کو بھی فائدہ پہنچا رہے تھے۔ مطلب آپ جو اس جی ایس ٹی کی مخالفت کررہے ہیں جس سے آپ کا ماحول بھی بچنے والا تھا۔ شیم آن یو ہیڈس آف جی ایس ٹی شیم آن یو۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں کہا تھا ’’ہم جانتے ہیں کہ ٹول پر گھنٹوں تک ہماری گاڑیاں ٹھہری رہتی ہیں ملک کا اربوں کھربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ فیول کے چلنے کی وجہ سے ماحولیات کا بھی زبردست نقصان ہوتا ہے اس سارے مسئلہ کی وجہ سے ایک طرح سے ان سے آزاد ہونے کی راہ ہمیں ملے گی۔ آپ کو اب جی ایس ٹی سے ناراضی ہونے کا کوئی حق نہیں۔ اس لیے تو اس معاملہ میں پارلیمنٹ کا اجلاس رات کو طلب کیا گیا تاکہ آپ نیند میں رہیں۔ ویسے بھی جب تک آپ نیند میں رہیں گے مندر مسجد کے نام پر تنازعات میں پھنسے رہیں گے تب تک آپ کو مہنگائی، بیروزگاری اور ٹیکس دہشت گردی سے کوئی نہیں بچائے گا۔