حسنین مسعودی ’کشمیر کے مسلئے کو حل کرنے کے لئے زوردیاجائے گا‘۔

,

   

اننت ناگ کے نئے رکن پارلیمنٹ جس کا ماننا ہے کہ سیاست عوام کی خدمت کا ایک بہترین شعبہ ہے‘ نے کہاکہ ”ہمیں اپنے شناخت کا حق ہے اور میں اس بات پر خوش ہوں کہ مجھے پارلیمنٹ میں آواز اٹھانے کا موقع ملا ہے“۔

سری نگر۔ جموں کشمیر کے سری نگر سے ایک گھنٹے کے راستہ پر اننت ناگ‘ جنوبی کشمیر کے قلب میں جوہے‘ کا شمار وادی کے شورش زدہ علاقے میں شمار کیاجاتا ہے۔

پہلے ہی مئی23کے روز عام انتخابات کے نتائج منظرعام پر آنے سے کچھ ہفتے قبل اننت ناگ خود کش حملے کی وجہہ سے سرخیوں میں آیاتھا جس میں ایک پولیس جوان‘ پانچ سی آر پی ایف کے جوانوں کی موت ہوگئی تھی اس کے علاوہ دہشت گردوں او رسکیورٹی دستوں کے درمیان میں پیش ائے ایک انکاونٹر جس میں ایک فوجی افیسر کی جان چلی گئی تھی۔

پلواماں جہاں پر 40سی آر پی ایف جوان فبروری14کے روز پیش ائے خود کش حملے میں ہلاک ہوگئے تھے‘ اس پارلیمانی حلقہ کا حصہ ہے۔

اننت ناگ وہ علاقہ بھی ہے جہاں سے برہان وانی جیسے نوجوان پہاڑوں میں کہیں غائب ہوجاتی ہیں اورصرف سوشیل پر سامنے آتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں اے کے47بندوق ہوتی ہے اور وہ دہشت گرد گروپ حزب المجاہدین کے سرغنہ بن جاتے ہیں۔

جب وانی کو جولائی2016میں سکیورٹی دستوں نے ہلاک کردیاتھا‘ کشمیر میں بڑی پیمانے پر احتجاج کاسلسلہ شروع ہوا۔ اس احتجاج میں ایک سوکے قریب لوگ مارے گئے اور ہزاروں لوگ زخمی ہوئے تھے۔

یہ وہی اننت ناگ ہے جہاں سے جموں کشمیر ہائی کورٹ کے سابق جج 65سالہ حسنین مسعودی جو2016میں ریٹائرڈ ہوئے تھے سیاسی میدان میں اترے اور نیشنل کانفرنس کے امیدوار کے طور پر جیت حاصل کی۔

مسعودی کبھی سرگرم سیاست کا حصہ نہیں رہے وہ اس وقت حیران ہوگئے جب این سی صدر فاروق عبداللہ نے انہیں اپریل میں اپنے گھر چائے کے لئے مدعو کیااور ان سے پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کا استفسار کیا۔

مذکورہ دونوں میں سابق میں ارٹیکل 35اے‘ مستقبل رہائش‘ سرکاری ملازمین‘ حصول اراضی‘ ریاستی قانون اور دیگر چیزوں پر ایک ساتھ کام کیاہے۔

سال2014سے 35اے کو سپریم کورٹ میں چیالنج کیاجارہا ہے۔ دونوں این سی او رکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ) نے قانونی چالنج کے لئے سوال پر مداخت کی مانگ پرمشتمل درخواست دائرکی ہے۔

علیحدہ طور پر پچھلے سال ارٹیکل370جس جموں کشمیر کو خصوصی موقف فراہم کرتا ہے‘ کو بھی سپریم کورٹ میں چیالنج کیاگیاہے

ہندوستان ٹائمز نے جب مسعودی سے استفسار کیاکہ آپ کی ترجیجات میں کیاہوگا‘ قانون کی عدالت یا پھر عوامی عدالت؟

انہو ں نے جواب دیا”بطور جج میں نے ان تمام واقعات کی سنوائی کی جو میری عدالت میں پیش ہوئے۔

میں کسی پاس کے نہیں گیا اور نہ ہی کسی مسئلہ کا انتخاب کیا۔ اب سینکڑوں لوگ ایک عام درخواست کے بغیر آرہے ہیں۔

منظر بہت بڑا ہے“۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور ائی وی وائی لیگ کالج سے پوسٹ گریجویٹ مسعودی مشکل سے انتخاب کے موقف میں ہے‘ اور ان کے لئے اننت ناگ نے یہ کام کردیا اور زیادہ تر موقع مبہم ہیں۔

پولیس ریکارڈس سے دستیاب ڈاٹا جس کا استعمال انہوں نے انتخابی تقریریوں میں کیا ہے وہ ان کی ترجیحات کی ایک کہکشاں ہے۔

پانچ سالوں میں رات کے وقت 91,000گھروں میں کارڈن اینڈ سرچ اپریشن‘ 450اموات اور 32,000گرفتاریاں۔

مذکورہ اعداد وشمار کی پیشکش ان کے حلقے کے لوگوں میں غصہ اور برہمی کا وجہہ بنا۔سولہ اسمبلی حلقوں پر مشتمل اننت ناگ پارلیمانی حلقہ کافی بڑا ہے۔

مسعود یہ جانتے ہیں۔ وہ اپریل میں ترال کے اندر پارٹی کے لیڈر اشرف بھٹ کے گھر میں این سی کی انتخابی میٹنگ کے دوران پیش ائے گرنائیڈ حملے میں بچ گئے تھے۔

سال2014میں مسعود کا گھر جو کھیراو (اننت ناگ کا حصہ) ہے کو نشانہ بنایاگیاتھا‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کے بیٹے یاور قانون کی پڑھائی کررہے تھے اور 2014کے اسمبلی الیکشن میں این سی کے امیدوار تھے جبکہ اس حملے میں دوسکیورٹی گارڈس ہلاک ہوگئے تھے۔

خطرات کے باوجود جو کہاجارہا تھا اس سے کہیں آسان دیکھائی دے رہی ہے۔

مسعودی نے پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی (پی ڈی پی) کی چیف محبوبہ مفتی کو دس ہزارووٹوں سے جبکہ کانگریس کے امیدوار غلام احمد ڈار کو 7ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے‘ مگر کم رائے دہی کے باوجود کامیابی نصیب ہوئی ہے۔

مسعودی نے کہاکہ ”جموں کشمیر میں ہمارے پاس کو ئی منتخب حکومت نہیں ہے‘ جس کی وجہہ سے میرے اوپر کافی دباؤ ہے“۔

نومنتخبہ رکن پارلیمنٹ نے کہاکہ”جموں اور کشمیر دیگر ریاستوں کی طرح نہیں ہے۔مرکز میں نئی حکومت کے ساتھ ہماری شناخت سے متعلق مسئلے اور آزادی مرکز توجہہ بنا ہوا ہے۔

ہمیں اپنے شناخت کا حق ہے اور میں اس بات پر خوش ہوں کہ مجھے پارلیمنٹ میں آواز اٹھانے کا موقع ملا ہے“۔

مسعودی نے کہاکہ ان کی ترجیحات کشمیری مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ کامیابی کہاں تک ملے گی اس کے متعلق میں نہیں جانتا مگر میں اپنی آواز ضرور اٹھاتا رہوں گا۔