بطور نذرانہ دی جاسکتی ہے، مولانا غوثوی شاہ کا بیان
مولانا غوثوی شاہ نے اپنے ایک بیان میں برادرانِ اسلام سے اپیل کی ہے کہ وہ غریب آلِ رسولؐ سادات کرام کی مالی اِمداد فرمائیں وہ مالی اِمداد کے زیادہ مستحق ہیں اور اُن کی مدد اللہ اور اُسکے رسولؐ کی خوشنودی کا باعث ہے۔ واضح باد کہ دُرِّ مختار اور دوسری کتابوں کے حوالہ سے یہ فتویٰ چلے آرہا ہے کے ’’ سادات کو زکوٰۃ نہ دی جائے‘‘ جبکہ سادات کو صرف صدقہ ہی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ حضورؐ نے سادات کو صرف صدقہ ہی سے روکا ہے جیسا کہ حدیثِ نبویؐ صحیح مسلم میں اِنَّ ھذہِ الصدقات اِنَّما ھِی اَو سَاخٍ النّاسِ واِنّہا لَا تحل لمحمد وَلا آلِ محمد ﷺ کے الفاظ آئے ہیں’’ یہ صدقات لوگوں کے میل ہیں اور یہ محمد صلعم اور آلِ محمد ﷺ پر حرام ہیں‘‘چنانچہ اکثر لوگ اِسی حدیث کی غلط ترجمانی کرکے صدقہ کا معنی زکوٰۃ لیتے ہیں جبکہ زکوٰۃ کے معنی برکت پانا، پاک ہونا اور افزونی کے ہیںیہی وجہ ہے کہ حضورؐ نے’’ روزہؔ کو جسم کی زکوٰۃ فرمایاہے ‘‘ کیا روزہؔ ناپاک ہو جائیگا کیا سادات روزہ ؔنہ ر ہیں؟اِس سلسلہ میں سلف صالحین کے اقوال سے دو گنجائش نکلتی ہیں بہ حوالہ حدیث دیلمی ایک یہ کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے نزد یک سا دات کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں دوسرے حضرت اِمام ابو حنیفہؓ کا قول ہے کہ اگر سادات کے لئے بیت المال کی مخصوص مدباقی نہ رہے تو ان کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے(بحوالہ ردّالمختار۲۹۹؍۳) اِسکے علاوہ حضرت اِمام طحاویؓ نے بھی یہ فتویٰ دیا ہے کہ ’’ جب تک مالِ غنیمت اہلِ بیت کو ملتا رہا زکوٰۃ اُن کے لئے واجب نہیں تھی مگر جب مالِ غنیمت مسدود ہوگیا زکوٰۃ ان کے لئے جائز ہو گئی پس مندرجہ صدر مستند حوالاجات کی روشنی میں ہمارے لئے حضرت اِمام اعظم ابو حنیفہؓ کا قول اور حضرت اِمام طحاویؓ کا فتویٰ اور فتاویٰ عالمگیری اور فتاویٰ تاتار خانیہ جلد 2 صفحہ 274 کی روشنی میںسادات کو زکوٰۃ بطور نذرانہ دینا جائزہے۔اسی طرح جامعہ نظامیہ کے سابق امیرجامعہ نظامیہ حضرت سیّد رشید پاشاہ قادری ؒ نے بھی مستند دلائل کے ساتھ کتاب جلالۃ العلم کے صفحہ327میںسادات کو زکوٰۃ دینا جائز قرار دیا۔دنیائے اسلام کی قدیم اور مشہور جامعہ جامعہ ازہرؔ مصر نے بھی بتاریخ 21مئی 2019ء حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؓ کے قول کے مطابق یہ فتویٰ دیا کہ”سادات کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے” جس طرح علمائے کرام دینی مدرسوں کو زکوٰۃ دینا جائز قرار دیتے ہیں جہاں رہایشی مدرسوں میں اکثر سادات بھی پڑھا کرتے ہیں اُن مدرسوں کو دیئے گئے زکوٰۃ کے پیسوں سے انھیں کھانا بھی ملتا ہے اور اُنکی پڑھائی بھی ہوتی ہے اور سادات ٹیچرز کو تنخواہیں بھی ملتی ہیں اِسی طرح سادات کو زکوٰۃ بطور نذرانہ دی جاسکتی ہے۔اور انکے نذرانہ لینے سے اُن کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں آئیگا ،ان شاء اللہ۔حسب مذکور حوالوں کے بشمول سورہ توبہ کی حسب ذیل آیت سادات کو زکوٰۃ لینے کی اجازت دیتی ہے ۱خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا۔اے نبیؐ!اُن کے مال اور دولت میں سے ایک حصہ بطور صدقہ(نذرانہ) لے لو، جس سے تم اُن کو (ظاہر میں بھی )پاک اور(باطن میں بھی)پاکیزہ کردوگے۔