ڈاکٹر قمر حسین انصاری
آپؒ کا اسم شریف محمد بن اسمعیل بن ابراهیم بن مغیره جعفی بخاری تھا۔ در اصل یمن میں ایک قبیله کو جعفی کہا جاتا تھا جس کا سردار جعفی ابن سعد تھا۔ اسی کے نام سے وہ قبیلہ یمن میں جعفی مشہو ر ہو گیا۔جو شخص اس قبیلہ سے ہوا کرتا تھا اُس کو جعفی کہا جاتا۔ جمعہ کے دن بعد نماز ۱۳ ماه شوال ۱۹۴ ہجری میں آپؒ کی ولادت با سعادت ہوئی ۔ امام بخاریؒ میانہ قد دبلے پتلے جسم کے آدمی تھے۔ سنہ ۲۵۶ ہجری میں عید الفطر کی چاند رات میں شنبہ کی شب میں عشاء کی نماز کے بعد آپؒ نے وفات پائی۔ عید الفطر کے دن ظہر کی نماز کے بعد سمرقند کے قریب ایک گاؤں خرتنگ میں آپؒ کی تدفین ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپؒ کو قبر میں دفن کیا گیا تو قبر سے مشک کی خوشبو پیدا ہوئی جسے دیکھ کر لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی ۔ بہت زمانے تک لوگ آ کر مِٹی سونگھا کرتے جو ایک کرامت ہے۔ شیخ سعدی شیرازی نے کیا خوب کہا:
جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
سرایت کر گیا مجھ میں ،ہم نشینی کا جمال،
ورنہ میری ہستی تھی ہمیشہ خاک کی
علامہ فریدی ؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ بخاری ؒ کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور ا کرم ﷺ کی معیت میں ہیں جب حضور انور ﷺ کسی مقام پر قدم اُٹھا کر رکھتے امام بخاری علیہ الرحمہ اُسی مقام پر اپنا قدم رکھتے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ بخاری علیہ الرحمہ کو سنت نبوی ﷺکی اتباع بہت مرغوب تھی ۔ سنت کے خلاف ایک قدم رکھنا بھی آپؒ کو گوارہ نہیں تھا !
علامہ غنجارؒ نے تاریخ بخارااور علامہ لالکائی نے شرح السنہ میں ایک ایسی حیرت انگیز بات لکھی جس سے ثابت ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام بخاریؒ کو اُمت محمدیہ کا مخدوم اعلیٰ اپنی رحمت سے یاد گار بنا کر بھیجا۔ وہ لکھتے ہیں کہ بچپن میں امام بخاریؒ کی آنکھیں جاتی رہیں۔ ایک شب اُن کی والدہ نے حضرت ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ فرما رہے ہیں کہ اے فلاں اللہ تعالیٰ نے تیرے بچے کی بینائی واپس دیدی ۔ صبح کو آپ کی والدہ صاحبہ نے جو دیکھا تو امام بخاریؒ کو بینا پا یا ۔ سبحان اللہ ! گویا کہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک تھی ۔
امام بخاریؒ خدا داد حافظہ اور علم حدیث کے ماہر تھے۔ خود امام بخاریؒ فرما یا کرتے تھےکہ میں تین لاکھ احادیث کا حافظ ہوں ، ایک لاکھ حدیثیں صحیح ہیں اور اور دو لاکھ غیر صحیح ۔ (بقول حمدویہ )
صحیح بخاری کے علاوہ امام صاحب کی اور بہت سی تالیفات موجود ہیں۔ جن میں قابل ذکر ادب المفرد بروایت احمد بن محمد ابن خلیل ، رفع الیدین فی الصلاۃ ،قرأت خلف الامام بروایت محمود ابن اسحٰق اور التاریخ الکبیرو غیره ہیں – امام بخاریؒ کے بعض اساتذہ ایسے بھی ہیں جو امام بخاریؒ سے روایت کرتے ہیں۔ مثلاً عبد الله ابن محمد مسندی ، عبدالله ابن منیر، اسحق ابن احمد سرماری، محمد ابن خلف وغیرہ۔
مولفؒ نے صحیح بخاریؒ کا اصل نام ’’ الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ ‘‘ رکھا تھا ۔ علم حدیث میں جس میں حدیث صحیح ہوں ، صرف صحیح بخاری اول حصہ لکھی گئی ۔ علماء کا اس امر پر اتقاق ہے که تمام احادیث میں صحیح تر کتابیں مسلم اور بخاری ہیں۔ علاوہ ازیں جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ بلحاظ صحت اور فوائد صحیح بخاری ، صحیح مسلم سے مرتبہ میں بڑی ہے۔ امام فریدیؒ سے منقول ہے کہ امام بخاریؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اس کتاب میں اس وقت تک کوئی حدیث نہیں لکھی جب تک دورکعت نقل نہ پڑھ لی جاتی ۔
امام بخاریؒ حدیث کے ماہر اور کامل حافظ تھے۔ جنہوں نے اپنی کتاب کو کمال کے ساتھ تحریر کیا اور صحیح احادیث کا ایک ایسا سرمایہ چھوڑ کر گئے جو اُمت مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ تاقیامت بن کر رہے گی ان شاء الله۔ ۲۵۶ھ میں آپؒ کا وصال ہوا ۔ کل عمر ۶۲سال کی ہوئی۔