حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کا مقام

   

ابوزہیر حافظ سید زبیر ہاشمی نظامی
قطب الاقطاب ، ابو الفتح ، صدر الدین ، سید محمد حسینی عرف حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز قدس سرہ ( متوفی ۸۲۵؁ھ ) کی شخصیت بہت سارے فضائل و کمالات کی جامع تھی ۔ آپؒ شریعت و طریقت کے مجمع البحرین تھے ۔ علم و حکمت ، فضل و کمال ، سلوک و عرفان ، طریقت و معرفت ، ولایت و روحانیت اور زہد و تقویٰ کی ساری خوبیاں ایک مرکز پر ہوگئی تھیں، جن کے سبب آپ کی شخصیت نمایاں بن گئی۔ آپ کی ذات جامع العلوم و الفنون اور جامع الحیثیات و الکمالات تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے وقت کے اکابر علماء و مصنفین اور عظیم المرتبت مشائخِ طریقت نے آپ کے علم و ولایت اور بلند علمی و روحانی مقام کا کھلے دل سے اظہار و اعتراف کیا ہے۔
ولادت ، نام و نسب ، تعلیم و تربیت : حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کی ولادت ۷۲۱ ھ؁ میں بمقام دہلی ہوئی ۔ جس وقت حضرت نظام الدین اولیاء کا وصال ہوا ، آپ چار سال کے تھے۔ نسبی لحاظ سے آپ کا تعلق حسینی سادات سے ہے ۔ بائیسویں پشت میں آپ کا سلسلۂ نسب حضور اکرم ﷺ سے ملتا ہے ۔’’ سیرِ محمدی‘‘ ( جو خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات اور احوال و آثار پر لکھی گئی مستند اور قدیم کتاب ہے) میں آپ کا شجرۂ نسب یوں بیان کیا گیا ہے : سید السادات ، منبع السعادات ، صدر الملۃ والدین ، الولی الاکبر الصادق ابو الفتح سید محمد بن یوسف بن علی بن محمد بن یوسف بن حسن بن محمد بن علی بن حمزہ بن داؤد بن زید بن ابو الحسن الجندی بن حسین بن ابی عبد اللہ بن محمد بن عمر بن یحییٰ بن حسین بن زید المظلوم بن علی اصغر زین العابدین بن الحسین السبط الشہید بن فاطمۃ بنت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ( سیرِ محمدی صفحہ ۷)
گیسو دراز ” کی وجہِ تسمیہ : قطب الاقطاب حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا اصل نام’’ سید محمد‘‘ ہے ، لیکن ’’بندہ نواز گیسو دراز‘‘ سے مشہور ہیں ۔ صاحبِ تذکرۂ علمائے ہند کے بیان کے مطابق آپ کو ’’گیسو دراز‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک دن آپ نے کچھ لوگوں کے ساتھ اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی پالکی اُٹھائی ہوئی تھی ، پالکی اُٹھاتے وقت آپ کے گیسو ( بال ) جو قدرے لمبے تھے ، پالکی میں پھنس گئے ۔ آپ نے شیخ کی تعظیم و ادب اور غلبۂ عشق کی وجہ سے بال کو پالکی سے چھڑانے کی کوشش نہیں کی اور سارا سفر اسی حالت میں طے کیا ۔ جب آپ کے پیر و مرشد کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس حسنِ ادب سے بہت خوش ہوئےاور یہ شعر پڑھا :
ہر کہ مریدِ سیدِ گیسو دراز شد
واللہ خلاف نیست آں عشق باز شد
اُس کے بعد سے آپ کا لقب ’’ گیسو دراز‘‘ پڑ گیا اور عوام و خواص آپؒ کو اسی نام سے یاد کرنے لگے ۔ (مفہوم تذکرۂ علمائے ہند فارسی )
علمی مقام و مرتبہ : حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ جامعِ معقول و منقول ، ماہرِ شریعت و طریقت اور بلند علمی مقام رکھنے والے عالم باعمل و صوفی با صفا تھے ۔ آپ کا شمار جلیل القدر اصحابِ طریقت اور مایۂ ناز رجالِ علم و معرفت میں ہوتا ہے ۔ باطنی علوم کے ساتھ ظاہری علوم و فنون میں بھی آپ کا پایہ کافی بلند تھا ۔ آپ کی علمی جلالت تاریخی مسلّم ہے۔ آپ کی گراں قدر تصانیف اور آپ کی نوکِ قلم سے وجود میں آنے والے مختلف علوم و فنون پر مشتمل تقریباً ایک سو کتب و رسائل اس بات کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ صرف مسندِ ولایت و روحانیت کے ہی صدر نشیں نہ تھے، بلکہ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم و فاضل ، بلند پایہ محدث و مفسر ، بے مثال فقیہ ، بلند پایہ محقق و مفکر اور اعلیٰ درجہ کے مصنف بھی تھے۔ آپ جامعِ کمالاتِ ظاہری و باطنی تھے ۔ علومِ ظاہری میں نہایت اونچا درجہ رکھتے تھے۔شہر گلبرگہ کو تنہا یہی شرف حاصل نہیں کہ وہ ایک قدیم تاریخی مقام ہے اور دکن کی پہلی اسلامی ریاست کا صدر مقام رہا ہے ، بلکہ اس کی خاک میں مختلف مذاہب کے بڑے بڑے پیشوا آسودۂ خاک ہیں ۔ حضرت مخدوم ابو الفتح صدر الدین سید محمد حسینی خواجہ گیسو دراز بندہ نواز کو ہم سب ایک ولیِ کامل اور ایک ہادیِ اعظم کی حیثیت سے جانتے اور مانتے ہیں ۔ ( ماہنامہ شہباز ، گلبرگہ شریف ، جنوری و فروری۱۹۶۲ ؁)
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے کچھ اقوال و ارشادات پیش خدمت ہیں: (۱ ) جب تک ایک شخص تمام دنیاوی چیزوں سے فارغ نہ ہو جائے ، راہِ سلوک میں قدم نہ رکھے ۔( ۲) ایک بندہ حقیقت و طریقت کو شریعت کی ضد نہ سمجھے ۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کا خلاصہ تصور کرے ۔ جس طرح اخروٹ کا مغز اخروٹ کے چھلکے سے بظاہر مختلف معلوم ہوتا ہے ، پھر بھی مغز کا جز چھلکے میں اس طرح ملا ہوتا ہے کہ اس سے بھی تیل نکالا جاتا ہے ۔ اسی طرح حقیقت و طریقت اور شریعت تینوں ایک ہی ہیں ۔ (۳ ) رات کے وقت بستر پر انسان کو سوچنا چاہیے کہ اس نے دن میں کون کون سا کام کیا اور دن میں سوچنا چاہیے کہ رات کو کیا کیا ۔ اپنے کاموں کا محاسبہ کرو۔ اگر دینی کام اور اچھے کام زیادہ کیے ہیں تو خدا کا شکر ادا کرو اور اس پر استقلال برتو اور اگر دین کے کاموں میں کچھ غفلت برتی ہے تو توبہ کرو اور جہاں تک ممکن ان کی تلافی کرو ۔(۴ ) زوال کے وقت قیلولہ کریں ، تاکہ شب بیداری میں آسانی ہو ۔ (۵ ) دل سے ہوس کو دور کریں اور اگر دور نہ ہو تو اس کے لیے مجاہدہ و ریاضت کرتے رہیں ۔ (۶ ) کسی بھی حال میں اپنے نام کو شہرت نہ دیں ۔ بازار صرف شدید ضرورت کے وقت جائیں ۔ (۷) اپنے پاس لوگوں کی زیادہ آمد و رفت نہ ہونے دیں ۔ (۸) امیروں کی صحبت سے دور رہیں ۔ (۹) مصیبت کے وقت مضطر اور مضطرب نہ ہوں ۔ کسی بھی حال میں نہ روئیں اور روئیں بھی تو اس لیے کہ کہیں منزلِ مقصود تک پہنچنے سے پہلے اس کو موت نہ آ جائے ۔