حضرت سید شاہ عبد اللطیف لاا ُبالی ؒ

   

از:ڈاکٹر سید عارف پاشاہ قادری
سلطان الفقراء حضرت سید شاہ عبد اللّطیف لااُبالی قدس سرہٗ کا شمار ہندوستان کے اولیائے اکابرین میں ہو تا ہے۔ جن کی اولاد میں اور اہلِ سلسلہ میں کئی صاحبِ کرامت اولیاء اور باعمل علماء پیدا ہوئے جن کی کوششوں سے ہندوستان میں اسلام اور تصوف کی تعلیمات عام ہوئیں۔ آپ کا حلقۂ ارادت وسیع اور آپ کے نیاز مند اقطاعِ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حضرت غوثِ صمدانی محبوبِ سبحانی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کے صاحبزادے حضرت سیدنا تاج الدین ابو بکر عبد الرزاق قادری قدس سرہٗ کی اولادِ امجاد میں سے جو سات بزرگ جنوبی ہند میں سبعہ قادریہ کے نام سے مشہور ہیں ان میں آپ کا بھی شمار ہوتا ہے ۔ آپ کی ولادت ملک ِ شام میں بمقام حماہ ہوئی۔ آپ کے آباء واجداد وہیں سکونت پذیر تھے۔ آپ کے اجداد میں حضرت سیف الدین ابو زکریا یحییٰ قادری قدس سرہٗ بغداد سے ہجرت فرماکر حماہ تشریف لائے تھے جو حضور غوثِ اعظم کی پانچویں پشت میں ہیں۔ حضرت سید شاہ عبداللطیف لاابالی قدس سرہ آپ کی دسویں پشت میں ہیںاس طرح سرکارِ لااُبالی ،حضور غوثِ اعظم کی پندرہویں پشت میںاور مولا علی مشکل کشا شیرِخدا کرم اللہ وجہہ کی ستائیسویں پشت میں ہوتے ہیں۔ والدِ ماجد کا اسم گرامی حضرت سید شاہ طاہر قادری ہے ۔ جن سے آپ نے سلسلہء قادریہ عالیہ میں بیعت وخلافت حاصل کی ۔ عین عالم شباب میں اشارئہ باطنی پاکر اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنے وطن مالوف حماہ سے نکلے اور حضرت میراں حسین بغدادی کے ساتھ بہ عہد سلطان ابراھیم قطب شاہ حیدآباد پہنچے وہاں سے عالم پور تشریف لاکر کچھ مدت وہاں قیام فرمایا پھر کرنول تشریف لائے تویہیں رہ گئے ۔ آپ کا ایک لقب سلطان الفقراء بھی ہے۔ کرنول کے وجئے نگر امپائر کے آخری گورنر راجہ گوپال کی اکلوتی لڑکی سانپ کے ڈسنے سے فوت ہوگئی تھی جو آپ کی کرامت سے زندہ ہوگئی۔ اس کرامت سے متاثرہوکر راجہ اور رانی مسلمان ہوگئے اور رعایا کی بھی ایک بڑی تعداد حلقۂ اسلام میں داخل ہوئی۔ چالیس سا ل کی عمر میں آپ نے ایک محفل میں دو عقد فرمائے۔ ایک حضرت حمزہ حسینیؒ کی صاحبزادی سے، جوسلسلۂ چشتیہ کے کامل شیخ تھے ۔دوسرا عقد حضرت سید علی قادری ابنِ سیدشاہ اسحق ثناء اللہ قادریؒ کی دختر سے، جن کو والی ِ کرنول نے امیر کا لقب دیا تھا ۔ ہر فرزند کی پیدائش پر ’’ہذا میت‘‘فرماتے اور صاحبزادے کی وفات ہوجاتی۔ مرید ین کے استفسار پر فرمایا :’’محبوبِ حقیقی سے ہمارا یہ معاہدہ ہے کہ جو فرزند صاحبِ عمر ومعرفت نہ ہو گا وہ کم سنی ہی میں وفات پاجائیگا‘‘۔ غرض پانچ صاحبزادے باحیات رہے۔ آپ نے صرف ایک مرد کامل کو خلافت عطا فرمائی جن کا اسمِ گرامی حضرت شیخ علی صوفی ہے ان ہی کے توسط سے آپ کے سلسلے کا فیض جاری ہو ا۔ ۷؍ذی الحجہ کو کرنول میں وصال ہوا اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔ سنہ وصال میں مؤرخین کا اختلاف ہے ایک روایت کے مطابق ۱۰۵۰ ہجری (۱۶۴۰؁ء ) وصالِ مبارک کا سال ہے۔ بارگاہِ مقدس مرجعِ خلائق ہے۔ مختلف مقامات سے زائرین کی آمد کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے ۔عرس شریف کی سہ روزہ تقاریب ۷، ۸ اور ۹ ذی الحجہ کو بصد عقیدت و احترام منعقد ہو تی ہیں۔