ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی
ابو الحسنات حضرت سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ ملک ہندوستان کی ایک عبقری شخصیت ہے۔ محدث دکن امتِ محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت ورہنمائی کیلئے کئی علمی وتحقیقی تالیفات اور تصنیفات بطور یادگار چھوڑے، جو تمام اُمت (خاص کر دکن والوں کیلئے) انمول علمی تحفہ اور عظیم تحقیقی سرمایہ ہے۔ محدث دکن علیہ الرحمہ علوم و فنون کے آفتاب و مہتاب ہونے کے ساتھ ساتھ دور اندیش مفکر، صاحب رائے دانشور تھے۔ آپؒ کی تمام خدمات کے درمیان خدمت حدیث شریف زجاجۃ المصابیح کی تالیف ایک نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔ چنانچہ آپؒ کی ہمہ جہت اور جامع کمالات شخصیت بطور خاص محدث دکن ؒسے مشہور ہوئی۔زجاجۃ المصابیح میں محدث دکن علیہ الرحمہ نے ان احادیث ودلائل کو نہایت عرق ریزی سے جمع فرمایا جو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مستنبط فقہی مسائل کی تائید وتوثیق کرتی ہیں۔ علم وفن کی دنیا میں آپؒ کی اس مایہ ناز تصنیف کو قدرو ومنزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ملک عرب وعجم کے علماء وفضلاء نے اس کتاب کی تالیف کو امت پر عظیم احسان قرار دیااور کہا کہ صدیوں سے دنیا بھر کے حنفیوں کے سرپرجو قرض تھا، اسے حیدرآباد دکن کی ایک بزرگ شخصیت، دکنی علاقہ کے محدث نے اداکردیا۔برسہا برس سے درس نظامی میں مشکوۃ المصابیح پڑھائی جاتی ہے۔ محدث دکن علیہ الرحمہ نے اس کتاب میں ان احادیث مبارکہ کو جمع کیا، جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مستنبطہ مسائل کی تائید وتوثیق کرتی ہیں۔ دنیاکا ایک بڑا حصہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مقلد و پیروکار ہے، لیکن احناف کے پاس مستقل کوئی مشکوۃ المصابیح کے طرز پر حدیث کی کتاب نہ تھی، دلائل مختلف کتابوں میں الگ الگ تھے۔ اللہ تعالی نے یہ نیک بختی حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ کے حصہ میں رکھی تھی۔
آپ خود فرماتے ہیں مشکوٰۃ المصابیح کا بڑی عمیق کے ساتھ مطالعہ کے بعد میرے دل میں اکثر یہ بات رہا کرتی تھی کہ مشکوٰۃ المصابیح کے طرز پر ایک کتاب لکھوں، جس میں امام اعظم حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اﷲعلیہ کے مسلک کو اختیار کروں، مگر میری بے بضاعتی مجھے اس مرتبہ کے حاصل کرنے سے روک رہی تھی کہ اسی زمانے میں میں نے خواب دیکھا کہ روزِ رسالت کے درخشاں آفتاب اور شب تاریک کے منور ماہتاب، نور ہدایت اور تاریکیوں کے روشن چراغ ہمارے پیارے اور محبوب آقائے نامدار حضرت نبی اکرم ﷺ تشریف فرما ہوئے اور سلام فرمائے، میں نے سلام کا جواب عرض کیا۔میری جان آپ پر قربان۔ آپ نے اپنے سینۂ مبارک سے۔ جو علم اور حکمتوں کا سر چشمہ ہے۔ چمٹا کر گلے سے لگالیا، جب میں نیند سے خوش خوش بیدار ہوا تو اس نعمت پر اللہ تعالی کی حمد کی اور اس کا شکر ادا کیا۔ الغرض اس نیک اور مبارک خواب سے میرا سینہ کھل گیا،اور اس کام کی تمام مشکلات مجھ پر آسان ہوگئیں۔ میں نے اس کتاب کی تکمیل و تالیف کا عزم کرلیا اور اس کے لکھنے کے لئے کمرِ ہمت باندھ لی، بحمداللہ! میں نے اس کتاب میں ہر حدیث کے درج کرتے وقت ضرور حضرت رسول اللہ ﷺپر درود بھیجا ہے اور میں نے زجاجۃ المصابیح اس کتاب کا نام تجویز کیا۔یہ کتاب تقریبا پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے طرز پر آپؒ نے ہر کتاب کے آغاز میں اس سے متعلقہ قرآنی آیات درج فرمائی،احادیث وآثار جمع کئے اور ان کے تحت نفیس علمی مباحث حاشیہ میں درج فرمائی۔ اس متبرک کتاب کے نفع کو عام سے عام تر کرنے کی غرض سے اس کااردومیں ترجمہ کیا گیا۔جو نور المصابیح کے نام سے تقریباً بائیس جلدوں میں طبع ہوئی۔
حدیث شریف : فرمایا جنابِ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے دوزخ میں جب دوزخی چلائیں گے کہ عذاب میں کچھ تخفیف ہو! تو جواب ملے گا کہ دنیا میں انسانوں کو بھی تم سے ایسی تکلیف ہوتی تھی یہ اسی کا بدلہ ہے۔
فارسی کا مشہورشعر ،جس کا ترجمہ یہ ہے : ’’تم ہزار زہد یعنی ترک دنیا اور عبادت و ریاضت کی زندگی بسر کرو اور ہزار بار استغفار بھی پڑھتے رہا کرو اسی طرح ہزار روزہ رکھ کر ہر روز ہزار مرتبہ نماز بھی پڑھا کرو اسی طرح ہزار راتیں بیدار رہ کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری میں لگے رہو لیکن یہ ساری عبادت و ریاضت خدا کے پاس قابل قبول نہ ہوگی اگر تم نے کسی کی دل آزاری کی ہو یعنی اگر کسی ایک دل کو بھی دُکھ دیا ہو‘‘۔حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سب سے بہتر وہ دل ہے جو بدی اور شر سے خالی ہو جس کے رات اور دن اس حالت میں بسر ہوں کہ اس نے نہ کسی کو تکلیف پہنچائی نہ کسی کا دل دُکھایا تو گویا اس نے وہ رات و دن جنابِ رسول اللہﷺ کی حضوری میں بسر کی-
اﷲ تعالیٰ ہم کو محدث دکنؒ کے علمی و روحانی فیض سے مالا مال کرے اور آپؒ کے اُسوہ حسنہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جو کسی مومن کو ستاتا ہے اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔جب کوئی جاہل جہالت سے آپ کو ستانے لگے یا ایذاء رسانی کے درپے ہوجائے تو ایسے جاہلوں کے ساتھ جاہل بن کر مقابلہ نہ کرو، بلکہ یہ معاملہ حق تعالیٰ سے رجوع کردو۔
حدیث شریف : جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کے مدارج بڑھانا چاہتے ہیں تو اس پر ایک ظالم مقرر کردیتے ہیں جو اس کو ستاتا رہتا ہے جب یہ اس جاہل سے اعراض کرتا ہے تو اس کا قرب اورمدارج بڑھتے جاتے ہیں۔حضرت تمیمی رحمۃ اللہ علیہ کا قاعدہ تھا کہ جو کوئی انہیں ستاتا اس کے لئے کبھی بددعا نہ فرماتے اور ارشاد ہوتا کہ اس کیلئے اس کے ظلم کا بوجھ ہی بہت کافی ہے۔
سچی توبہ اور توفیق الٰہی: حضرت بشر بن حارث حافی رحمۃ اللہ علیہ شراب پئے ہوئے مست چلے جارہے تھے کہ راستہ میں ایک کاغذ پڑا ہوا نظر آیا، اس پر بسم اللہ شریف لکھی ہوئی تھی، تڑپ گئے فوراً اُٹھالیا، چوما، آنکھوں سے لگالیا اور اسی وقت بازار سے عطر خرید کر اس کاغذ کو معطر کیا اور تعظیم سے بلند جگہ رکھ دیا۔ اسی شب ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں حکم دیا جارہا ہے کہ جاکر بِشر سے کہہ دو کہ تو نے ہمارے نام کی تعظیم کی ہے ہم بھی اس کے صلہ میں تجھے پاک کرکے تیرا رتبہ بلند کریں گے۔ ان بزرگ نے یہ سمجھ کر کہ بِشر ایک فاسق و فاجر انسان ہے،شائد مجھے غلط فہمی ہوئی ہو ؛ اس حکم پر عمل نہ کیا، متواتر تین دن تک یہی خواب دیکھتے رہے،حضرت بِشر کی رِند مشربی و معصیت کاری اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ یقین آنا ہی محال تھا، آخر چوتھے روز وہ بزرگ حضرت بِشر کے گھر پہنچے،معلوم ہوا کہ آپ شراب کے نشہ میں مدہوش پڑے ہیں، ان بزرگ نے بِشر کے گھر والوں سے کہا جاکر بِشر سے کہو کہ میں انہیں ایک پیام پہونچانے آیا ہوں، بِشر نے ملازم سے کہا پوچھو کس کا پیام ہے؟ بزرگ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا پیام لے کر آیا ہوں۔ حضرت بِشر نے یہ سن کر ایک چیخ ماری، آبدیدہ ہوگئے اورکہنے لگے: نہ جانے اللہ تعالیٰ نے کیا پیام بھیجا ہے؟ عتاب (غصہ) ہوا ہے، عذاب نازل ہونے والا ؟ دوستوں کو ہمیشہ کیلئے رخصت کرکے دروازہ پر گئے، پیام جو سنا تو دل میں آگ لگ گئی، الٰہی جب مجھ رِند و عاصی پر یہ کرم ہے تو نیکوکاروں پر کیا کچھ نہ ہوگا، یہ کہا اور بے ہوش ہوگئے۔ ہوش میں آتے ہی سچے دل سے توبہ کرلی اور شریعت غراء کی روشنی میں یادِ الٰہی میں مشغول ہوگئے اور اس خیال سے کہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کی طرح کسی نامِ الٰہی کی بے ادبی نہ ہو جوتے کا استعمال چھوڑ کر ننگے پاؤں پھرنے لگے۔ پروردگار عالم نے اس خیال سے کہ بِشر جو ننگے پاؤں پھرتے ہیں ان کے پاؤں میں کچھ چبھ نہ جائے ۔ ہوا کو حکم ہوا کہ بِشر جس راستہ سے گزریں، اس راستے کو صاف کردے، اسی وقت سے بِشر رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حافی بڑھادیا گیا (حافی ننگے پاؤں پھرنے والے کو کہتے ہیں)۔حضرت بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ جس بستی میں چلتے اور پھرتے راستے ایسے صاف ہوتے کہ ان پر ننگے پاؤں چلنا تو کیا اگر کوئی لوٹ پوٹ بھی کرے تو اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، یہ حال آپ کی زندگی تک رہا، آپ کے وصال کے بعد ایک دوسری بزرگ ہستی کا گزر جب ان کے وطن میں ہوا اور راستوں کی یہ حالت دیکھی تو لوگوں سے پوچھا کیا بشر حافی کا انتقال ہوچکا ہے؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں ، یہ نعمت ہم سے چھین لی گئی ہے۔ (اقتباس از:مواعظ حسنہ ، حصہ دوّم ، حضرت ابوالحسنات محدث دکن علیہ الرحمہ )
اﷲ تعالیٰ ہم کو محدث دکنؒ کے علمی و روحانی فیض سے مالا مال کرے اور آپؒ کے
اُسوہ حسنہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین