حافظ محمد ذاکر حسین قادری نظامی
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کی صفات کو ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور(عمر بھر) پرہیز گاری کرتے رہے ‘ انہیں کے لئے دنیاکی زندگی میں اور آخرت میںخوشخبری ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی باتیںنہیں بدلتی یہی بڑی کامیابی ہے ‘‘۔(یونس ۶۳‘۶۴) حضور ﷺ نے متقی اور پرہیزگار لوگوںکے متعلق ارشاد فرمایا ’’بے شک میرے پسندیدہ لوگ متقی اور پرہیزگار ہیں‘‘۔(ابو دائود ) ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا ’’ بے شک لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب متقی اور پرہیزگار ہیں خواہ وہ کوئی بھی ہوںاور کہیں بھی ہوں‘‘۔(مشکوٰۃ)چنانچہ ان آیات واحادیث شریقہ کی مصداق پرہیزگار ہستیوں میں ایک ذاتِ والا صفات حضرت مولاناالحاج شاہ محمد عبدالرشید نقشبندی قادری چشتی شاہ ولی اللہی رحمۃ اللہ علیہ ہے آپ کا اسم گرامی ’’محمد عبد الرشید‘‘ اور لقب ’’ابوالبرکات‘‘ ۔آپ کے والد ماجد کا نام ’’ ولی محمد‘‘ اور آپکی والدئہ ماجدہ کا نام ’’عائشہ بیگم‘‘ ۔ آپ کی ولادت ۲۰ جنوری ۱۹۵۴ ء کو حیدرآباد میں ہوئی۔ آپ نے اپنی آبائی قیام گاہ (فیل خانہ‘ حیدرآباد) کے قریب میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ازہر ہند جامعہ نظامیہ حیدرآبادمیں شعبئہ عربی میں داخلہ لیا اور مولوی دوم کی تکمیل فرمائی۔ آپ کی عمر ۹سال تھی کہ والدصاحب نے آپ کو فخر العلماء سیدی و سندی ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی قادری محدّث دکن رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت دلائی۔ مزید تعلیم و تربیت اور ارادت کو مستحکم کرنے کے لئے شہزادہ و جانشینِ محدّث دکن ؒ حضرت ابو البرکات سید شاہ خلیل اللہ نقشبندی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے وصال تک یعنی ۴۰ سال سے زائدعرصہ حضرت کی خدمت و صحبت میں رہے اور سلوک کے منازل طئے کئے ۔ آپ نے جانشین ِ محدّث دکنؒ کے ساتھ کئی اولیاء اللہ کے آستانوں پر بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ بارہا حاضری دی۔ حضرت فخر الصوفیاء یوسف بابا رحمۃ اللہ علیہ نے روبرو تمامی مشائخین کرام و فقراء ذوی الاحترام حضرت مولانا الحاج شاہ محمد عبدالرشید قادری چشتی و نقشبندی نوراللہ مرقدہ کو سلسلہ عالیہ قادریہ و چشتیہ شاہ ولی اللہی میں خلافت دینے کے ساتھ ساتھ اپنا جانشین بھی مقرر فرمایا۔ آپ نے ایک سے زائد مرتبہ حج فرمایا ۔ ۱۸ ربیع الاول ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۲ ستمبر ۲۰۲۴ء بروز اتوار بوقت ۴ بجے دن تقریباً ۷۰ برس کی عمر میں دوران زیارتِ آثار مبارکہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَo ۔ آپ کے جسد خاکی کو رنگریز (چھیپا قبرستان ،مصری گنج ) کے احاطہ میں سپردِ لحد کیا گیا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے عرض کیا ‘ اللہ کو کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ’’مرتے دم تک تمہاری زبان اللہ کے ذکرسے تر رہے ‘‘۔(شعب الایمان)
اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ قطب الدین حاجی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ ’’ جو فائدہ میں نے ذکر میں پایا وہ کسی دوسری عبادت میں نہیں پایا‘‘۔اسی طرح حضرت بو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’ ذکر ولایت کا منشور ہے جسے ذکر کی توفیق ملی اسے منشورِ ولایت مل گیا‘‘۔اور یہ بھی کہا گیا کہ ’’ذکرِ الہی مریدوں کی تلوار ہے وہ اس سے دشمن کو ہلاک کریں یا مصیبت کو ٹالیں ‘ وہ اس سے دل لگائیں دشمن ہلاک ہوجائے گا اور مصیبت ٹل جائے گی‘‘۔(الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ )
اسی کے پیش نظر آپ اپنے ہر ملنے والے کو ذکر کی اہمیت بتاتے ہوئے ذکرکرنے کی تلقین فرماتے اور اللہ والوں کے احوال و اعمال کا خوب تذکرہ فرماتے۔وصال سے کچھ دیر قبل تک بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔وصال کے وقت حضرت سید شاہ مظفر حسین نقشبندی قادری صاحب قبلہ (نبیرئہ محدث دکنؒ )اور خاکسار راقم الحروف بھی آپ کے ساتھ تھا کہ آپ بلند آواز سے ذکر کررہے تھے ۔اسی اثناء میں پیرومرشد حضرت محدّث دکن رحمۃ اللہ علیہ کی ہی تاریخ وصال(۱۸) کو اپنی مستحکم نسبت کا ثبوت دیتے ہوئے
آپ کی نماز جنازہ ۱۹ ربیع الاول ۱۴۴۶ھ م ۲۳ ستمبر ۲۰۲۴ ء بعد نماز ظہر جامع مسجد حکیم میر وزیر علی میں حضرت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی قادری صاحب (صدر مفتی و شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد )نے پڑھائی ۔ جس میں ممتاز علماء کرام و مشائخ عظام کے علاوہ سینکڑوں افراد موجود تھے۔
آپ کے جسد خاکی کو محدّث دکن سیدی ابو الحسنات رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ (مصری گنج حیدرآباد)کے عقب میں رنگریز (چھیپا قبرستان ) کے احاطہ میں سپردِ لحد کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے تصدق آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزئہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
٭٭٭