قیادت خودغرض، بے حس ہے ملت کیا کیا جائے
تباہی ایسی ملت کی ہے قسمت کیا کیا جائے
حیدرآباد میں تباہی ‘ ذمہ دار کون ؟
شہر حیدرآباد میںیکے بعد دیگر ے آفات سماوی کا سلسلہ جاری ہے ۔ کورونا وائرس کی وباء سے عوام ابھی سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ بارش نے تباہ کاریوں کا سلسلہ شروع کردیا ۔ گذشتہ ہفتے ہوئی بارش نے صورتحال کو انتہائی دھماکو کردیا تھا اور حیدرآباد کی ترقی اور ورلڈ کلاس شہر ہونے کا بھرم دھرا کا دھرا رہ گیا ۔ سارا شہر ایک طرح سے اتھل پتھل کا شکار ہوگیا تھا ۔ بارش نے کئی بستیوں کو محصور اور زیر آب کردیا تھا ۔ اب بھی کئی بستیوں میں پانی جمع ہے اور اس کی نکاسی میں حکومت اور عوامی نمائندے و سرکاری محکمے بے بسی کا شکار ہیں۔ گذشتہ شب بالاپور تالاب گرم چیرو کا پشتہ ٹوٹنے سے جو تباہی آئی ہے وہ بھی بہت بھیانک ہے ۔ سینکڑوں خاندان بے یار و مددگار ہوگئے ہیں۔ ان کاسب کچھ تباہ ہوگیا ہے ۔ کئی گھروں میں ضروریات زندگی کا سارا سامان بہہ گیا ہے ۔ کچھ گھروں میں شادیوں کی تیاریاں تھیں وہ بھی ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ صورتحال اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ شہر کی ترقی کے جو دعوے کئے جارہے تھے اور ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرنے کی جو باتیں کی جا رہی تھیں وہ محض باتیں تھیں اور حقیقت میں سارا شہر ایک طرح کے سلم کی صورتحال اختیار کرگیا ہے ۔ ایک موسم کی معمول سے زیادہ بارش نے ترقی کا سارا بھرم توڑ کر رکھ دیا ہے ۔ حالات اتنے سنگین ہوگئے ہیں کہ تالابوں کے پشتے ٹوٹنے لگے ہیں۔ جو لوگ موسی ندی کے کناروں پر بس گئے ہیں ان کی زندگیاں پہلے ہی اجیرن تھیں اور اب تالابوں کی زمینات پر ناجائز قبضے کرتے ہوئے فروخت کرنے والوں نے آس پاس کی تمام بستیوں کو خطرہ کے سامنے لا کھڑا کردیا ہے ۔ گرم چیرو تالاب کی کئی ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضے ہوچکے ہیں اور یہ قبضے کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں تھے ۔ کئی مقامات پر تو خود سیاسی قائدین نے قبضے کرکے ان اراضیات کو فروخت کردیا ہے ۔ کروڑہا روپئے کی دولت بٹورلی ہے لیکن عوام کی زندگیوں سے انہوں نے کھلواڑ کیا ہے ۔ انہیں غیر مجاز قبضوں اور تالابوں کی اراضیات کی فروخت نے حیدرآباد کو عملا تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے اور لوگ اپنی زندگیاں بچانے کیلئے بھی گڑگڑانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
سینکڑوں مواقع پر حکومتوں نے تالابوں کی اراضیات فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم یہ اعلانات محض اعلانات ہوتے ہیں کیونکہ حکومتیں بھی اپنے حلیفوں یا حواریوں کو پورا موقع دیتے ہوئے عوام سے لا تعلق ہوجاتی ہیں۔ حکومتوں کی مسلسل لا پرواہی اور مجرمانہ غفلت اور سیاسی ساز باز نے دارالحکومت شہر کو تباہی کے دہانے پر پہونچا دیا ہے ۔ سیاسی مصلحت پسندی نے عوام کی زندگیوں کے معنی و اہمیت ختم کردئے ہیں ۔ سیاسی قائدین اور ذمہ داران کی ناجائز دولت کمانے کی ہوس کی قیمت غریب عوام اپنی زندگیوں سے چکانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کی زندگیاں ایک سے زائد موقع پر تہس نہس ہوکر رہ گئی ہیںلیکن سیاسی جماعتیں اور اس کے ذمہ داران یا پھر یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتیں انتہائی بے حسی کے ساتھ خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ حالات کی نزاکت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے چند دورے کرنے اور عوام کو جھوٹی تسلیاں اور دلاسے دینے کے علاوہ سیاسی جماعتوں اور حکومتوں نے کچھ بھی نہیںکیا ہے ۔ عوا م کو صرف گمراہ کرنے اور انہیں بیوقوف بنانے پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے ۔ حکومتوں کے تغافل اور مجرمانہ ساز باز کا سلسلہ کم از کم اب ختم ہونا چاہئے ۔ ناجائز دولت کمانے کی ہوس رکھنے والوں کے خلاف اور تالابوں کی اراضیات پر غیر مجاز قبضے کرتے ہوئے ان کو فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ صرف دکھاوے کے مقدمات درج کرنا کافی نہیں ہوگا ۔
حکومتوں کے پاس نہ صرف حیدرآباد بلکہ ساری ریاست کے تالابوں اور کنٹوں کی اراضیات کی تفصیلات کا ریکارڈ موجود ہے ۔ ان کی اراضیات کی نشاندہی پہلے بھی کی جاچکی ہے اس کے باوجود اگر حکومت ان لینڈ گرابرس کے خلاف کوئی کارروائی نہیںکرتی ہے اور تحقیقات نہیں کی جاتی ہیں تو پھر جو تباہی ہوئی ہے اور جو جانی ومالی نقصان ہوچکا ہے اس کی راست ذمہ دار حکومت بھی ہوگی ۔ شہر کے عوام کو بھی اب اس تعلق سے اپنے شعور کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بھی لینڈ گرابرس اور غنڈہ گردی کرنے والوں کو سبق سکھانا چاہئے ۔ اپنے حقوق کیلئے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔ حرص و ہوس رکھنے والوں کو ان کا صحیح مقام دکھانے اور دیانتدار و فر ض شناس نمائندوں کا انتخاب عمل میں لانے کی ضرورت ہے ۔
