وزیرداخلہ تلنگانہ کو کھلا مکتوب
عالیجناب محمد محمود علی صاحب ، وزیرداخلہ ریاست تلنگانہ
سلام مسنون ! اﷲ سبحانہ کے فضل و کرم سے آپ تلنگانہ ریاست کے نظم و نسق کے اہم اور ذمہ دارانہ عہدے پر فائز ہیں ۔ تلنگانہ ریاست اور اس کی عوام کی حفاظت ، کمزوروں کی حمایت ، مظلومین کی دادرسی ، مظالم اور جرائم کی روک تھام ، ظالموں کی بیخ کنی ، شرپسندوں اور مافیا کی سرزنش ، بوڑھے ، بچے اور خواتین کے تحفظ کی ضمانت ، امن و امان کی برقراری نیز مذہبی رواداری اور بقائے باہم کو متاثر ہونے نہیں دینا ، نہ صرف قوم و ملت کی عظیم خدمت ہے بلکہ توشہ آخرت بھی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے اور اہم فریضہ کی ادائیگی میں آپ کی مدد فرمائے اور آپ کو اس کا اجر جزیل عطا فرمائے ۔ آمین
عرض خدمت یہ ہے کہ آج سے تقریباً تیرہ چودہ سال قبل حیدرآباد کی ایک تنظیم نے مرکزی جلوس میلاد کا ہوّا اُٹھایا اور شہر کی مختلف تنظیموں کو جو اپنے حدود میں میلاد کے موقعہ پر اظہار خوشی کرتے تھے جمع کیا اور اُن کو مرکزی میلاد جلوس کے ذریعہ وحدت ، جمعیت اور اہلسنت والجماعت کی مرکزیت کی دہائی دی ۔ عوام اور نوجوانوں کی کوئی تربیت نہیں کی ۔ ان کو مقامِ رسالت کے آداب قطعاً نہیں بتائے ۔ جلوس میلاد کے کوئی اُصول و قوانین مقرر نہیں کئے اور نوجوانوں کو جشن میلاد منانے کے لئے سڑکوں پر آنے اور دل کھولکر حسب مرضی خوشیاں منانے کی ترغیبیں دی گئیں نیز سادہ لوح نوجوانوں کو آیت قرآنیہ ’’ترجمہ : اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر ان کو اظہار خوشی کرنا چاہئے ‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے بازاروں ، سڑکوں اور میدانوں میں حسب مرضی و حسب چاہت خوشی کا اظہار کرنے کو صحیح معنی میں جشن میلاد قرار دیا ۔ گویا سال نو کے آغاز کے موقع پر جس طرح جشن منایا جاتا ہے اسی نہج پر اظہار خوشی کرنے کا نظریہ دیا۔ طرفہ تماشا کہ جلوس آرگنائزرس میلاد کے دن جلوس کی شکل ایسا ظاہر ہوئے جیسے کوئی سیاسی لیڈر الیکشن جیتنے کے بعد اپنے حامیوں کے ساتھ جشن مناتے ہوئے اپنے ہیڈکواٹر کو پہنچتا ہے ۔ انھوں نے شریعت کے احکام کا قطعاً پاس و لحاظ نہ رکھا اور نہ بزرگوں کے طریقہ کو ملحوظ رکھا اور تنقید کرنے پر اخلاقیات کی تمام حدوں کو پھلانگ دیا گویا ان سے غیرت و خودداری اور اخلاقیات کی توقع رکھنا عبث ہے ۔
شریعت میں اظہار خوشی کا طریقہ : شریعت مطہرہ میں ’’عید‘‘ (Festival) کا مفہوم اظہار تشکر ، اپنے اور پرایوں سے اظہارمحبت نیز فقراء اور مساکین سے اظہارہمدردی ہے ۔ اسلام میں عیدالفطر اور عیدالاضحی دو عید رائج ہیں۔ ایک ماہ مکمل رمضان میں مسلمان رات دن عبادت کرنے کے بعد جب عید مناتے ہیں تو عید کے دن نماز پنجگانہ کے علاوہ دو کعت اضافی نماز عید ادا کرتے ہیں اور اس میں بھی تکبیرات کا اضافہ کرتے ہیں کھلے میدان میں جمع ہوکر مسلمان قوم کی وحدت و جمعیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ عید کے موقعہ پر گلے ملکر گلے، شکوے ، رنجش و عداوت بھول جاتے ہیں ۔ نیز عیدگاہ آتے جاتے وقت ذکر الٰہی میں رطب اللسان رہتے ہیں اور تکبیرات کے ذریعہ خدا کی کبریائی بیان کرتے ہیں ۔ اسی اظہاربندگی اور اظہارمحبت کا نام عید ہے ۔ عیدالاضحی : عیدالاضحی درحقیقت سنت ابراھیمی کی یادگار ہے جس میں پدر بزرگوار نے فرزند ارجمند کو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور یہ جذبۂ قربانی بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی اور فرزند کی جگہ دنبہ ذبح ہوا ۔ یہی قربانی اہل اسلام کے لئے تاقیامت عید قرار دی گئی ۔ اس عید سے ایک روز قبل دنیا کے طول و عرض سے صاحب استطاعت میدان عرفات پہنچ کر وقوف کرتے ہیں اور اپنی بندگی اور باہمی اتحاد کا اظہار کرتے ہیں ۔ دوسری طرف مسلمان یوم عرفہ کا روزہ رکھتے ہیں اور عید کے دن عیدگاہ میں بطور شکرانہ دو رکعت زائد تکبیرات سے نماز ادا کرتے ہیں ۔ آتے جاتے وقت تکبیرات کی صدائیں بلند کرتے ہیں ۔ قربانی دیکر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور عید کی خوشی میں اپنوں اور غرباء کو شامل کرتے ہیں ۔ اسلام میں یہی عید کا مفہوم ہے اس میں لہو و لعب ، خرافات ، لغویات، غیرمہذب حرکات و سکنات کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اسلام کی تعلیمات درحقیقت مسلمان کو رنج و خوشی ہر موقعہ پر لغویات و خرافات سے بچانا ہے ۔ افسوس کہ جلوس کے آرگنائزرس نے اسلام کی روح کو ہی ختم کردیا ۔
شب قدر : شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس رات انسانیت کی ہدایت کیلئے کلام الٰہی کا نزول ہوا ۔ یہ ایک یادگار لمحہ ہے ، ہر شب قدر کو نزول قرآن نہیں ہوتا وہ ایک دفعہ کا واقعہ تھا لیکن اس کو یادگار بنایا گیا اور اس یادگار کی تعظیم میں فرشتے نزول کرتے ہیں ۔ فرشتوں کے سردار تک تشریف لاتے ہیں اور مسلمان اس یادگار رات کو لہو و لعب ، رقص و سرور یا سڑکوں پر جشن مناکر نہیں گزارتے بلکہ عبادت میں صرف کرتے ہیں اور ایک ایک لمحہ عبادت میں گزرانے کیلئے جستجو کرتے ہیں یعنی کسی یادگار پر تاہم اظہار خوشی میں مسلمان مزید عبادات کا اضافہ کرتے ہیں ۔
مسلم شریف کی روایت کے مطابق نبی اکرم ﷺ سے دوشنبہ کے دن روزہ رکھنے سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس دن میری ولادت ہوئی اور اس دن پہلی وحی کا نزول ہوا ۔ (فیہ ولدت وفیہ انزل علی الحدیث ) متذکرہ حدیث کی روشنی میں نبی اکرم ﷺ نے اپنی پیدائش کے دن نفل روزہ رکھ کر اظہارتشکر فرمایا اور اپنی اُمت کو خوشی کے اظہار کا سلیقہ سکھایا بناء بریں جلوس میلاد کے نام پر جو خرافات اور بے راہ روی مسلمانوں میں بڑھ رہی تھی بعض ملت کا درد رکھنے والے افراد دارالافتاء جامعہ نظامیہ سے رجوع ہوئے ۔ اس وقت یہ خاکسار نائب مفتی کے فرائض انجام دے رہا تھا ۔ ایک اہم فتوی جاری ہوا جس کا پہلا فقرہ روحِ اسلامی اور مزاج شریعت کا غماز ہے : ’’نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کا دن ، تمام اہل اسلام کے لئے فرحت و سرور اور بہجت و انبساط کا دن ہے ۔ میلادالنبی ﷺ کے مبارک موقعہ پر اظہارخوشی کرنا ، بطور شکرانہ روزہ رکھنا نبی اکرم ﷺ کے عمل مبارک سے ثابت ہے ۔ بناء بریں اس مبارک موقعہ پر نبی اکرم ﷺ کے ذکر مبارک کی محفلیں منعقد کرنا ، درود و سلام ، اطعامِ طعام و دیگر کارہائے خیر کا اہتمام کرنا شرعاً محمود و مستحسن ہے ۔
فتوی کے کلیدی اور آخری فقرے میں حیدرآباد میں شروع ہوئے میلاد جلوس کے نام پر ہونے والی بعض خرابیوں کا حکم بتاتے ہوئے اظہارخوشی کے لئے اہم شرعی اُصول پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
تاہم اظہارخوشی حدود شریعت میں ہونی چاہئے ، اظہارِ خوشی میں غیرشرعی اعمال و حرکات جیسے گانا بجانا ، رقص کرنا ، گانوں کی دھن میں نعت لگانا وغیرہ کی قطعاً اجازت نہیں ہوسکتی ۔ اتنی بلند آواز سے ریکارڈ لگانا جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو منع ہے ۔ حتی کہ دوسروں کو خلل کا اندیشہ ہو تو بالجہر قرآن مجید پڑھنے کا حکم نہیں …
اسلام ایک اعلیٰ و پاکیزہ مذہب ہے اس میں لغویات ، خرافات اور ثقاہت و وقار سے عاری حرکات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ مباح اعمال میں اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اس سے دوسروں کو اذیت ، تکلیف اور خلل نہ ہو ۔ فقط والسلام
تنظیم نے نہ صرف اس فتوی کومسترد کیا بلکہ ان کے ایک ذمہ دار نے بیان دیا کہ ’’محبت کے اظہار کے لئے کوئی اُصول مقرر نہیں جیسے چاہے خوشی کا اظہار کرو ‘‘ وہیں ایک اور ذمہ دار نے فتوی کا مذاق اُڑاتے ہوئے اعلان کیاکہ ایسے فتوؤں کی طرف توجہہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔
شریعت مطہرہ میں ہرکس و ناکس کو شریعت کی دہائی دیکر عامتہ المسلمین کو Call دینے کا حق نہیں حتی کہ نماز جمعہ جوکہ فرض ہے اس کے اعلان کے لئے بھی حاکم وقت یا حاکم وقت کی جانب سے مقررہ کردہ نائب کا ہونا شرط ہے تاکہ کسی قسم کی بدنظمی اور ملت کا استحصال نہ ہو ۔ میلاد جلوس از روئے شرع نہ فرض ہے ، نہ واجب ، نہ سنت اور نہ مستحب ۔ جلوس ایک سیاسی مصلحت پر مبنی ایک حکمت عملی ہے ، جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کسی عالم یا واعظ کو یہ حق نہیں کہ وہ قوم کو سڑکوں پر لے آئے ۔ صوفی اور صاحب نسبت کو تو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا ۔ لہذا مرکزی میلادجلوس کا فیصلہ غیرشرعی و غیردانشمندانہ ہے ۔ نپورشرما اور راجہ سنگھ کے توہین آمیز بیانات کے باوجود اگر میلاد جلوس کو منظم اور Organized نہ کیا گیا تو سیاسی استحصال کا قوی اندیشہ ہے ۔ لہذا محترم وزیرداخلہ سے مؤدبانہ خواہش ہے کہ وہ میلاد جلوس کو منظم کرنے اور اس کو شرعی اور قانونی دائرے میں لانے کے لئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کریں۔ واضح رہے کہ ٹی آر ایس حکومت ، پولیس ، مجلس اتحادالمسلمین کی سپریم لیڈرشپ علماء و مشائخ سبھی میلاد جلوس میں ہونے والی خرابیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں ، وہ اپنے اپنے طورپر فکرمند ہیں۔ آپ کی ذات گرامی سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ ان سب کو آپ ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے مسلمان قوم کو آداب ، اُصول و قواعد پر مبنی پیغام دے سکتے ہیں اور بلاشبہ اس کے فی الفور مثبت نتا ئج برآمد ہوں گے ۔ فقط والسلام