خدایا تیری زمین پر امن کے خاطر جنگ کیوں ہے ؟

   

غضنفر علی خان
کسی فلسفی نے کہا تھا کہ ’’جنگ میں وہ زیادہ زخمی ہوتے ہیں، جو محاذ جنگ میں نہیں جاتے‘‘ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’جنگ بہترین انسانوں کا بدترین استعمال ہے ‘‘۔ جنگ کبھی امن کے قیام کا ذریعہ نہیں بنتی بلکہ دشمنی اور مقابلہ آرائی کی راہ ہموار کرتی ہے ۔ اس وقت جنوبی ایشیاء کی دو نیوکلیئر طاقتیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہوئی ہیں، بے اعتمادی کا بارود ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں پر ایک طرح سے بچھی ہوئی ہے ، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس بارود پر کب اور کہاں کوئی چنگاری گرے اور برصغیر میں انتہائی خوفناک اور ہلاکت خیز دھما کہ ہو۔ پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان ایک ایسی حکومت کے سربراہ ہیں جس کا ریموٹ کنٹرول پاکستانی فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ کہ عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن ہر بار ان کی فوج اور ان کے ہتھیار امن کی غارت گری کیلئے تیار ہیں اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ عمران خان کے دل خوش کن تیقنات پر اعتماد کیا جائے کیونکہ پاکستان کے قیام کے 70 سال کے بعد بھی دونوں پڑوسی ملکوں میں ہمسائیگی سے زیادہ عداوت کا رشتہ دیا ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت گویا فوج اور انتہا پسندوں کے کنٹرول میں ہے ، یہ انتہا پسند ایک طاقت بنے ہوئے ہیں جو کسی بھی وقت جمہوری حکمرانوں اور فوج کو صف آرائی کے لئے مجبور کرسکتے ہیں ۔ موجودہ وزیراعظم پاکستان ایک ہاتھ میں تلوار لے کر اپنی زبان سے امن کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں حالانکہ ہندوستان نے کئی بار مستقل امن کیلئے مخلصانہ کوشش کی ، امن کا یہ قافلہ ہندوستان کی جانب سے وزیراعظم ہندوستان واجپائی کے زمانہ میں بس یاترا کر کے ان کرواہٹوں کو مٹانے کی کوشش کی تھی۔ اس بس یاترا میں خود واجپائی شامل تھے ۔ سمجھوتہ اکسپریس ہندوستان نے شروع کی تھی ، اس سمجھوتہ اکسپریس میں پاکستان کے انتہا پسند عناصر نے دھماکہ کر کے پھر صورتحال کو سنگین بنادیا تھا ۔ کارگل کا واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستانی حکومت فوج کے آگے بے بس ہے، وہاں جمہوری حکومتوں کا کوئی احترام نہیں رہا ، برخلاف اس کے ہندوستان میں جمہو ریت اس قدر مضبوط ہے کہ ہماری فوج اس وقت تک کوئی فوجی کارروائی نہیں کرتی یا نہیں کرسکتی جب تک کہ ہندوستانی حکومت اس کو کوئی اقدام کرنے کا حکم نہ دے۔ کارگل جنگ کے درمیان اس وقت کے فوجی سربراہ سے جب پو چھا گیا کہ کیوں کارگل میں جوابی کارروائی نہیں کی جارہی ہے تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ ہم اس وقت تک کوئی قدم اٹھا نہیں سکتے جب تک کہ حکومت کوئی اقدام کرنے کا حکم نہ دے ۔ ان حالات میں پا کستانی فوج کے سربراہ نے وہاں کی حکومت کے حکم کے بغیر اپنے بل بوتے پر کارگل جنگ شروع کردی تھی ۔ ہندوستان امن کا خواہشمند ہے اور بہ ظاہر پاکستان بھی امن کا دعویٰ کرتا ہے۔ پا کستان میں کم از کم تین مرتبہ وہاں کی جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر فوجی حکومت قائم کی گئی تھی ۔ سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو اور ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا ، یہاں تک کہ دورے پر اس وقت گئے ہوئے میاں نواز شریف کے طیارے کو اسلام آباد میں اترنے تک نہیں دیا اور وہ سعودی عرب میں پناہ گزیں ہوگئے ۔ بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا ، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش پر اعتماد کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ عوام کے منتخبہ نمائندے بالکل بے بس ہوجاتے ہیں ۔ حد یہ ہوتی ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس میاں افتخار چودھری کو فوجی حکومت سڑکوں پر لے آتی ہے اور وہ کسی عام شہری کی طرح سڑکوں پر احتجاج کرنے لگتے ہیں ۔ جمہوریت کے سب سے اہم ستون صحافت پر جس وقت چاہے پابندی لگاسکتی ہے۔ عدلیہ ، عاملہ ، مقننہ اور صحافت محض مجبور ادارے ہیں۔ اب بھی یہی ہوا ہے کہ جمہوری ادارے پاکستان میں ناکارہ ثابت ہورہے ہیں۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے اس نے ہر وقت یہ کوشش کی کہ دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن قائم ہو لیکن ہر مرتبہ پاکستان کی جانب سے کبھی فوج اور کبھی دہشت پسند تنظیموں نے ہندوستان کو نشانہ بنایا ۔ اب حالیہ واقعات پلوامہ میں ہمارے چالیس (40) سپاہیوں کو گھات لگاکر حملہ میں پاکستان کی دہشت پسند تنظیم جیش محمد نے حملہ کیا اس سے پہلے کئی بار ایسے حملے ہوتے رہے ، پاکستان سے ہمارا یہ سوال ہے کہ آخر سمجھوتہ اکسپریس یا ممبئی حملے اور ایسی ناپاک سرگرمیوں سے اس نے کیا حاصل کیا ، کیا کشمیر ان کے قبضہ میں آگیا ، کیا چند ہندوستانیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکومت اور فوج ، دہشت پسند تنظیمیں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کوششوں کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا تو پھر ایسی ناکام کوشش سے پا کستان کو کیا حاصل ہوتا ہے ، جہاں تک جنگ کا سوال ہے پاکستان اس بات کا جواب دے کہ ابھی تک تین جنگیں دونوں کے درمیان ہوئی ہیں، ان کا کیا نتیجہ برآمد ہوا ۔ آزادی کے فوراً بعد پاکستانی قبائل نے پاکستان کے مقبوضہ کشمیر کو قبضہ میں لیا لیکن 1965 ء کی جنگ میں اس کو (پاکستان) انتہائی شدید اور ناقابل تلافی نقصان ہوا ۔ 1971 ء کی ہند۔پاک جنگ میں پاکستان کو شکست ہوئی ۔ جنوبی ایشیاء کی جغرافیہ ہی بدل گئی ۔ 1971 ء کی جنگ میں پاکستان نے اپنا 65% فیصد علاقہ کھودیا اور اس علاقہ میں ایک نیا جمہوری ملک بنگلہ دیش قائم ہوا ۔ ان جنگی نتائج کے باوجود پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ پھر ا یک جنگ ہو تو پاکستان کو کامیابی مل سکتی ہے ۔ یہ بات حرفِ غلط کی طرح ہے۔ ہندوستان کی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے ، اس کی معاشی ، صنعتی اور جنگی صلاحیت پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ انتہائی چھوٹے سے رقبہ والے ملک پاکستان کو شائد یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ اگر خدانخواستہ ایک اورجنگ ہوجائے جس کے بادل چھارہے ہیں تو پاکستان کا سارا ملک ہندوستان حملے کے زد میں آجائے گا۔ ہندوستان ایک ارب 30 کروڑ آبادی والا ایک ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں جنوبی ایشیاء کے کئی ممالک سے ملتی ہے۔ ہندوستان کے حملے کی صورت میں پاکستان خود کو محفوظ اگر سمجھتا ہے تو یہ اس کی نادانی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نیوکلیئر طاقت بن چکے ہیں جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت پر وہاں کی فوج کا دباؤ ہے۔ جنگ کی صورت میں پاکستان کی بے قابو فوج اور دہشت پسند تنظیمیں ان نیوکلیئر ہتھیاروںکا استعمال کرسکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جواب میں ہندوستان کو بھی یہی عمل کرنا پر ے گا اور اس خطہ میں اگر لڑائی چھڑ جائے تو برصغیر کے سارے ممالک متاثر ہوں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ نیوکلئیر ہتھیاروں کے استعمال سے حالات پر قابو نہیں رہے گا ۔ جنگ کے بارے میں یہ قیاس بالکل درست ہے کہ یہ مسئلہ کا حل برآمد نہیں کرتی بلکہ دونوں ملکوں کی عوام پر آلام و مصائب لاسکتی ہے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد ہم نے دیکھا کہ عوام (ساری دنیا) کس قدر تنگ دستی ، مہنگائی کے شکار ہوگئے تھے ، جرمنی میں تو یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے بیاگس میں ہزاروں کی کرنسی لے کر بازار سے معمولی اشیاء خریدتے تھے ، ساری دنیا میں اور خاص طور پر جنگ میں شریک ممالک میں قحط ، بدامنی سے ایک کہرام مچ گیا تھا وہ عوام جنہوں نے جنگ میں شرکت نہیں کی تھی وہ بے چارے بھوک ، افلاس اور تنگ دستی کے شکار ہوگئے تھے حالانکہ وہ محاذ جنگ میں نہیں گئے تھے بلکہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر امن کی دعائیں مانگ رہے تھے تو کیا پا کستان یہ بات نہیں سمجھتا کہ ’’جنگ میں وہ لوگ زیادہ زخمی ہوتے ہیں جو محاذ جنگ پر نہیں جاتے‘‘۔ پاکستان صرف امن کی خواہش رکھتا ہے ، امن کے قیام میں حائل رکاوٹوں پر غور نہیں کرتا بلکہ بے تحاشہ پاکستانی عوام پر ایسے مظالم کرتا ہے۔ اب بھی امن کے قیام کی باتوں کے بجائے اگر پا کستان اس کی فوج ، حکومت ، چاہے تو ہندوستان سے ایک ناجنگ کا معاہدہ کرسکتا ہے ۔ ہندوستان ایسے کسی بھی معاہدے پر آمادہ ہوسکتا ہے کیونکہ ہندوستان کو پاکستان سے جنگ کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ فرق ہے کہ ہندوستان امن اور شانتی کے قیام کیلئے مخلصانہ کوششیں کرتا ہے اور پا کستان کی حکومت وہاں کی دہشت پسند تنظیمیں صرف تمنا ؤں اور خواہشات کی شکار رہتی ہیں کہ کسی طرح دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہ ہو ، پاکستان امن کے قیام کے لئے کوئی ٹھوس عمل نہیں کرتا صرف زبانی جمع خرچ سے اس خطہ میں امن قائم نہیں رہ سکتا اس کے لئے ایک طاقتور پاکستانی حکومت چاہئے جب کہ ہندوستان میں جمہوریت اور یہاں کا سیاسی نظام انتہائی مستحکم ہے ، جمہوریت کی جڑیں ہندوستان میں مضبوط ہیں، یہاں کے جمہوری ادارے جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں اور ہماری فوج خود سے کوئی کارروائی اس وقت تک نہیں کرے گی جب تک ہندوستانی حکومت اس کا حکم نہیں دے گی ۔ امن کیلئے جنگ کی کبھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ، پاکستان میں یہ صورتحال ہے کہ دہشت پسند تنظیمیں وہاں کے فوج کی حمایت اور سرپرستی میں ایسی تخریب کاری کرسکتی ہے جو امن کو درہم برہم کردے ۔ پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ دہشت پسندوں کو اپنے قابو میں کرسکیں گے ۔ ان تنظیموں کو فنڈس کہاں سے ملتے ہیں ، ان کے پاس انتہائی جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے ، یہ بات پاکستانی حکومت کو سمجھنا چاہئے اور ان تنظیموں پر مکمل امتناع لگایا جانا چاہئے جس کی کوئی کوشش آج تک پاکستان نے نہیں کی، صرف امن کے کھوکھلے دعوے سے امن قائم نہیں ہوسکتا اس کیلئے ٹھوس اور مثبت کارروائیاں کرنا پاکستان کا فرض ہے ۔
خدایا تیری زمین پر امن کے خاطر جنگ کیوں ہے
ہر ایک فتح و ظفر کے دامن پر خونِ انسان کا رنگ کیوں ہے