ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کیا ’’اے امیر المؤمنین! آپ کے پاس ایک آیت ہے، اگر وہ آیت ہمارے لئے اترتی تو ہم اس دن کو اپنے لئے عید مقرر کرلیتے‘‘۔ آپ نے استفسار کیا ’’وہ کونسی آیت ہے؟‘‘۔ اس نے تلاوت کی ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے بطور دین اسلام کو پسند کیا ہے‘‘ (سورۃ المائدہ۔۳) حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ’’مجھے معلوم ہے وہ آیت کب نازل ہوئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں جمعہ کے دن تشریف فرما تھے، تب اس آیت کا نزول ہوا‘‘۔ حجۃ الوداع ہجرت کے بعد نبی اکرم ﷺکا پہلا اور آخری حج تھا، اس حج میں اسلامی تعلیمات کے اتمام و اکمال کا من جانب اللہ اعلان عام ہوا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج پر تشریف لے جانے کی اطلاع عام ہوئی تو مختلف علاقوں سے مسلمان حج کیلئے روانہ ہوئے اور کم و بیش ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا غیر معمولی وعظیم الشان اجتماع تھا۔ آپﷺ نے مناسک حج ادا فرماکر امت کے لئے عملی طورپر ایک نمونہ پیش کیا اور بہت سے اشکالات و سوالات کا حل بتاکر فقہ اسلامی کے اہم گوشہ عبادات کے سب سے مشکل و دقیق باب مناسک حج کے لئے رہنمایانہ نقوش فراہم کئے اور عرفہ کے دن ’’جبل رحمت‘‘ پر ایک شہرۂ آفاق خطبہ ارشاد فرمایا، جس کو تاریخ انسانیت ’’خطبۂ حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل اسلام کو تاقیامت انفرادی، اجتماعی، شخصی اور عائلی زندگی کے جامع و سنہرے اصول سے آگاہ فرمایا اور ساری انسانیت کو دنیا کے کسی کونے اور خطے میں کیوں نہ ہو، انفرادی و اجتماعی کامیاب زندگی گزارنے کا عالمی منشور عطا فرمایا، جس کے اقتباسات پیش ہیں:
’’لوگو! میری بات غور سے سنو، ممکن ہے اس سال کے بعد میں تم سے اس مقام پر نہ مل سکوں۔ اے لوگو! بلاشبہ تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو تمہارے لئے رب سے ملنے تک (تاابد) محترم ہیں، اتنے ہی محترم جتنا کہ آج کا دن اور یہ مہینہ اور یہ مقام ہے۔ ہاں، کیا میں (خدا کا پیغام) پہنچا دیا؟۔ اے اللہ گواہ رہنا کسی کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو وہ صاحب امانت کو واپس کردے۔ بے شک زمانہ جاہلیت کا سود (ربٰو) ختم کردیا گیا، البتہ تمھیں قرض کے اصل سرمائے کی بازیابی کا حق ہے۔ ظلم نہ کرو، نہ ظلم سہو۔ اللہ نے حکم دیا ہے کہ سود نہ رہنے پائے، سب سے پہلا سود جس (کی منسوخی) سے میں آغاز کرتا ہوں وہ میرے چچا عباس بن عبد المطلب کا (سابقہ واجب الادا) سود ہے۔ بے شک زمانہ جاہلیت کے خون ختم کردیئے گئے ہیں اور سب سے پہلا خون جس (کی منسوخی) سے میں آغاز کرتا ہوں، وہ (میرے بھتیجے) ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔ بے شک زمانہ جاہلیت کے جملہ امتیازات ختم کردیئے گئے ہیں، بجز کعبہ کی رکھوالی اور حاجیوں کو پانی پلانے کے۔ قتل عمد میں قصاص لیا جائے گا۔ قتل خطا وہ ہے، جب کسی کو لاٹھی یا پتھر سے قتل کیا گیا ہو اور اس میں سو اونٹ (بطور خوں بہا) ہیں جو اس سے زیادہ طلب کرے تو وہ زمانہ جاہلیت سے ہوگا۔
لوگو! شیطان اس سے مایوس ہوچکا ہے کہ تمہاری اس سرزمین پر اس کی عبادت کی جائے، لیکن وہ اس پر راضی ہے کہ (بت پرستی) کے سوا دوسرے ایسے کاموں میں اس کی بات مانی جائے، جس کو تم حقارت سے دیکھتے ہو۔ اپنے دین کے متعلق شیطان کی چالوں سے بچتے رہو۔
اے لوگو! نسئی (قمری سال کو شمسی سال کے برابر کرنے کے لئے اس میں وقتاً فوقتاً مہینوں کا اضافہ کرنا) کفر میں زیادتی ہے۔ اس سے جو لوگ کافر ہیں وہ گمراہ ہوتے ہیں۔ ایک سال تو وہ (ایک مہینہ کو) حلال قرار دیتے ہیں اور دوسرے سال کو حرام، تاکہ (مہینوں کی) اس تعداد کو (ظاہری طورپر) برابر رکھیں جو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ اس طرح اس مہینہ کو حلال کردیں جو اللہ نے حرام کیا ہے اور حرام کردیں اس کو جو اللہ نے حلال کیا ہے (کبیسہ والی اور غیر کبیسہ والی تقویموں میں) زمانہ گھوم کر اب دوبارہ اسی شکل پر آگیا ہے، جیسا کہ اس دن تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ حقیقت میں اللہ کے نزدیک اس کی تقدیر میں سال کے اس دن سے بارہ مہینے ہی تھے جب اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان میں چار حرمت کے مہینے ہیں، تین پے در پے اور ایک منفرد: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور قبائل مضر کا رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔ ہاں! کیا میں نے (اللہ کے پیغام کو) پہنچا دیا؟۔ اے اللہ! گواہ رہنا۔
لوگو! بے شک تمہاری بیویوں کا تم پر حق ہے اور تمہارا ان پر حق ہے۔ تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر، تمہارے سوا کسی اور کو (بدکاری کے لئے) روندنے نہ دیں اور تمہارے گھروں میں ایسے شخص کو آنے نہ دیں، جس کو تم ناپسند کرتے ہو بجز تمہاری اجازت کے اور تمہاری بیویاں کوئی فحش کام نہ کریں، لیکن اگر وہ ایسا کریں تو بے شک اللہ نے تمھیں پورا حق دیا ہے کہ ان کو (اس سے) منع کرو اور ان بستروں میں سزا کے طورپر تنہا چھوڑدو اور ان کو مارو، لیکن ایسی مار جو سخت نہ ہو۔ اگر وہ رک جائیں اور تمہاری بات مانیں تو تم پر واجب ہے کہ ان کو رسم و رواج کے مطابق مناسب غذا اور لباس مہیا کرو اور بیویوں سے اچھے برتاؤ کے متعلق تاکید کو سنو، کیونکہ وہ حقیقت میں تمہارے ماتحت ہوتی ہیں۔ ہاں! کیا میں نے (پیغام الٰہی) پہنچا دیا؟۔ اے اللہ! گواہ رہنا۔
اے لوگو! تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور کسی مؤمن کے لئے اس کے بھائی کا مال حلال نہیں، بجز اس کی رضامندی کے۔ ہاں! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا؟۔ اے اللہ! گواہ رہنا۔میرے بعد کافر بن کر ایک دوسرے کی گردنیں ہرگز نہ مارنا، میں تم میں دو ایسی چیزیں چھوڑکر جا رہا ہوں کہ اگر تم ان کو تھامے رہو گے تو کبھی بھٹکنے نہ پاؤ گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔ ہاں! کیا میں پہنچا دیا؟۔ اے اللہ! تو گواہ رہنا۔
لوگو! بے شک تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہار باپ بھی ایک ہے، تم آدم سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں خدا کے نزدیک سب سے مکرم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو اور کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر بجز تقویٰ کے کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں! کیا میں پہنچا دیا؟۔ لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا ’’ہاں! بے شک‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’اے اللہ! گواہ رہنا۔ حاضر شخص غیر حاضر تک (میری بات) پہنچا دے۔
لوگو! بے شک اللہ تعالی نے ہر وارث کے لئے (مرنے والے کی) میراث میں اس کا حصہ مقرر کردیا ہے اور کسی وارث کے لئے کوئی (مزید) وصیت جائز نہیں۔ اور وصیت (متروکہ کے) ایک تہائی سے زیادہ کے لئے درست نہیں اور بچہ بستر کے مالک (عورت کے شوہر) کا سمجھا جائے گا اور زانی کو پتھراؤ کیا جائے گا اور اپنے باپ کے سوا کسی اور سے نسب کا یا اپنے مولیٰ (آقا) کے سوا کسی اور کے مولیٰ ہونے کا دعویٰ کرے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔ ایسے شخص سے نہ کوئی معاوضہ قبول ہوگا نہ کوئی مماثل خیر عمل۔ والسلام علیکم‘‘۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے: ابن سعد الطبقات۲۔ ۱۷۲تا۱۷۹)طبرانی کی روایت میں یہ جملہ بھی ہے کہ ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں، اس لئے اپنے رب کی عبادت کرو۔ پانچ وقت کی نمازیں پڑھو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے حکام کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوگے‘‘۔ (بحوالہ سیرت خیرالانام)
یہ خطبہ فصاحت و بلاغت کا اعلی نمونہ ہونے کے ساتھ قانون اسلامی اور ضابطۂ اخلاق کا جامع اور بے نظیر خطبہ ہے۔ انسان کی شخصی، ازدواجی، عائلی، اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لئے نہایت مفید اور کافی ہے۔ آپﷺ کے تمام خطبات بلاغت کی عمدہ شاہکار ہیں، جو حدیث، سیرت، تاریخ اور ادب کی کتابوں میں چیدہ چیدہ ہیں، جن میں سے بیشتر خطبات احمد زکی صفوت نے جمھرۃ خطب العرب فی محصور العربیۃ الزاھرۃ،۱:۱۵تا۶۰ میں یکجا کیا ہے۔