سخت قانون بنانے سے نہیں ہوتا کچھ
ذہنیت اپنی بدل جائے تو کچھ بات بنے
خواتین کے خلاف جرائم
گذشتہ دنوں شمس آباد کے قریب ایک خاتون ڈاکٹر کے اغواء ‘ عصمت ریزی اور قتل واقعہ کی سارے ملک میں مذمت کی جا رہی ہے ۔ اس واقعہ نے سماج کے تقریبا ہر طبقہ کو دہلا کر رکھ دیا ہے ۔ آج ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آیا انسانیت اب بھی باقی رہ گئی ہے ؟ ۔ اگر اس طرح سے بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں سے کھلواڑ ہوگا اور انہیں ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا جائیگا تو پھر انسانیت کا نام و نشان ہی مٹ جائیگا ۔ یہ جرائم سماج کے کچھ گوشوں کی پستی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس طرح کے واقعات صرف کسی شہر یا کسی متاثرہ لڑکی تک محدود نہیں ہیں۔ آج ہمارے ہندوستان کا جو ڈاٹا ہے اس کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں ‘ جہاں عورت کو دیوی کا روپ بھی کہا جاتا ہے ‘ ہر 20 منٹ میں ایک لڑکی کی عصمت ریزی ہوتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ واقعات سرکاری ڈاٹا میں شمار تو ہوتے ہیں لیکن ان کے تدارک اور روک تھام کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے ۔ ملک کی کوئی ریاست اور کوئی شہر ایسا نہیں ہوگا جہاں خواتین کے ساتھ ہر روز یہ گھناونا جرم نہ ہوتا ہو ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک واقعہ سارے میڈیا کی اور سارے عوام کی اور سماج کے تمام طبقات کی توجہ حاصل کرلیتا ہے اور ہم کچھ دن اس واقعہ کو ذہنوں میں تازہ رکھتے ہیں لیکن پھر اسے فراموش کردیا جاتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر وہ لڑکی قابل عزت و احترام نہیں ہے جس کی عصمت کو ہر 20 منٹ میں ملک میں تار تار کیا جاتا ہے ؟ ۔ یقینی طور پر ہر لڑکی اور خاتون قابل احترام ہے اور ہر لڑکی کی عزت و عصمت کا تحفظ کیا جانا چاہئے ۔ جو واقعات ہور ہے ہیں وہ ہندوستانی تہذیب کی دھجیاں اڑانے والے واقعات ہیں اور ان کے تدارک کیلئے صرف حکومت یا پولیس کے اقدامات کافی نہیں ہوسکتے ۔ اس طرح کے واقعات اگر روکے نہیں جائیں تو سارے ملک میں ہندوستان کی جو رسوائی ہو رہی ہے اس کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا اور ہمارا ملک جو تہذیب و تمدن کا ملک اور روایات و اقدار کا ملک کہا جاتا ہے اس کی شبیہہ کو بگڑنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔
ہمارے ملک میں سماج کے ہر طبقہ کیلئے کام کرنے والی این جی اوز موجود ہیں۔ کئی تنظیمیں ہیں جو خواتین کے حقوق اور انہیں انصاف دلانے کی جدوجہد کا دم بھرتی ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سماج میں خواتین کی عزت و عصمت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے شائد ہی کوئی توجہ دی جاتی ہے ۔ یقینی طورپر سخت ترین قوانین تیار کرنا حکومتوں کا کام ہے اور ان قوانین پر عمل آوری کروانا نفاذ قانون کی ایجنسیوں بشمول پولیس کا کام ہے لیکن ساتھ ہی اس بات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ سماج میں اس تعلق سے شعور بیدار کیا جائے ۔ عصمت ریزی کے اکثر و بیشتر واقعات حالت نشہ میں ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں نشہ کی ہر سہولت موجود ہے ۔ ہر چھوٹے بڑے شہر اور معمولی قصبوں میں تک شراب کی دوکانیں عام ہیں۔ ان سماجی برائیوں اور لعنتوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ٹی وی چینلس اور فلموں میں خواتین کے مقام کو اجاگر کرنے کی بجائے انہیں ایک پرکشش شئے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ ہماری روایات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ یہ ایسے عوامل ہیں جن سے خواتین کی عصمت و عفت کی رکھوالی ہونے کی بجائے خواتین کو محض ایک شئے سمجھا جا رہا ہے ۔ اس تعلق سے بھی سماج میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں میں اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں اس تعلق سے ایک منظم مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ صرف پولیس اور حکومتوں پر جرائم کی روک تھام کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے سارا سماج بری الذمہ بھی نہیں ہوسکتا ۔
حیدرآباد کے قریب جو واقعہ پیش آیا ہے وہ حد درجہ قابل مذمت اور انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز ہے ۔ تاہم ہر 20 منٹ میں جو واقعہ پیش آر ہا ہے وہ بھی اتنا ہی قابل مذمت ہے اور ان تمام واقعات کی روک تھام کیلئے بھی جدوجہد ہونی چاہئے ۔ خاموشی سے درندوں کا شکار ہونے والی دوسری خواتین کیلئے بھی آواز اٹھنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بھی انصاف دلانے کیلئے سماج کے تمام طبقات کو اور عوام کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی سماج کو محفوظ اس وقت تک متصور نہیں کیا جاسکتا جب تک اس سماج میں خواتین اور لڑکیوں میں تحفظ کا احساس نہ پیدا کیا جائے ۔ اس معاملہ میں مذہبی اسکالرس کو ‘ سیاسی قائدین کو ‘ سماجی تنظیموں کو اور سماج کے ہر طبقہ کو اپنا رول ادا کرنے کیلئے کمرکسنے کی ضرورت ہے تاکہ ہندوستان کو حقیقی معنوں میں ایسا ملک بنایا جائے جہاں خواتین میں تحفظ کا احساس پیدا ہو اور ان کی عصمت و عفت محفوظ ہو ۔
