محمد یوسف الدین خاں (پھولانگ)
ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی رحمتوں اور برکتوں کا تو شمار ہی ناممکن ہے۔ یہ عشرہ رب کائنات کے خزانۂ رحمت لوٹنے کا عشرہ ہے۔ اس عشرہ کی آخری رات عید کی شب ہوتی ہے، جو خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لے کر امت مسلمہ کے لئے آتی ہے اور عید الفطر کی نوید سناتی ہے۔ عید الفطر کی ابتداء فرشتوں کی صداؤں سے ہوتی ہے کہ ’’اے اللہ کے بندو! دوڑو مسجدوں اور عیدگاہوں کی طرف، تاکہ تمہارا عظمت والا رب تم کو تمہاری عبادتوں اور ریاضتوں کی اُجرت عطا فرمائے اور مزدور کو اس کی مزدوری مل سکے‘‘۔ یہ دن انعامات الہی کی وصولی اور خوشنودی حاصل کرنے کا دن ہے۔ اللہ کے بندے نہا دھوکر، خوبصورت و خوشنما لباسوں میں ملبوس اللہ بزرگ و برتر کی عبودیت کے ترانے اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے عیدگاہوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں، جہاں حق تعالیٰ اپنے بندوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت و جلال کی قسم! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی دنیا اور آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھو گے، میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (ان کو چھپاتا رہوں گا) میری عزت کی قسم! میں تمھیں مجرموں کے سامنے رسوا نہ کروں گا۔ بس بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کیا اور میں تم سے راضی ہو گیا‘‘۔
لوگ خوشی خوشی اللہ کی رضا کا انعام سمیٹے گھروں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام رمضان المبارک کے خاتمہ کی کسک کو بھی کم کردیتا ہے۔ خالق کائنات نے جہاں اپنے حق پر زور دیا ہے، وہیں اپنے بندوں سے محبت و خلوص سے پیش آنے اور ان کے حقوق پر بھی زور دیا ہے۔ اسی لئے عید کی نماز کے بعد سلام پھیرتے ہی اپنے بھائیوں کو خلوص اور اُلفت بھرے دلوں سے گلے لگانے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے۔ اس موقع پر سارے رنج و غم اور شکوے شکایات بھول کر ہمیں اپنے بھائیوں کو گلے لگا لینا چاہئے۔
عید کی تیاریاں تو کئی دن پہلے شروع ہو جاتی ہیں، مگر جس دن چاند نظر آتا ہے اس دن بازاروں کی رونقیں دوبالا ہو جاتی ہیں۔ ہر مسلمان (غریب و امیر) اپنی اپنی حیثیتوں کے مطابق اپنے اہل و عیال کے لئے نئے کپڑوں، نئے جوتوں، تحفے تحائف کا بندوبست کرکے خوشی محسوس کرتا ہے۔ بچوں کی خوشی تو قابل دید ہوتی ہے۔ رات سے کئی کئی بار اپنے کپڑوں اور کھلونوں کو دیکھتے دیکھتے صبح کردیتے ہیں۔ لڑکیاں اور خواتین بھی ہاتھوں میں رنگ برنگی خوبصورت چوڑیاں پہن کر، دونوں ہاتھوں میں مہندی سجاکر، اس خوبصورت دن کا استقبال کرتی ہیں۔ عید کے دن اپنے روایتی پکوان یعنی شیر خورمہ، میٹھی سویاں، زعفرانی بادامی سویاں وغیرہ سے گھروالوں اور مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ بہن بھائیوں، دوست احباب اور عزیز و اقارب کو تحائف دے کر ان کے دِلوں میں پیار و اُلفت کی جوت جگائی جاتی ہے۔ گھر کے کمسن بچوں کو عیدی دی جاتی ہے۔ یہ دن عام انسانوں کا بنایا ہوا نہیں ہے، بلکہ یہ خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور دن خالق و معبود کا اپنے بندوں پر احسان عظیم کی صورت میں جلوہ افروز ہوتا ہے کہ اس خالق حقیقی نے ہم مسلمانوں کو رمضان کے روزے رکھنے، تراویح ادا کرنے، کلام اللہ سننے، سنانے اور پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی اور ہمیں اس کے عوض اس دن انعام و اکرام عطا کیا۔
عید کی سچی خوشی و مسرت وہی لوگ محسوس کرتے ہیں، جنھیں روزہ رکھنے اور عبادات کا موقع ملا۔ وہ لوگ بھلا اس لذت و خوشی کو کس طرح محسوس کریں گے، جنھوں نے روزہ رکھنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی ہو۔ عید کے لئے جہاں اپنے اہل و عیال کے لئے نئے لباس خریدیئے، وہیں غریب اور یتیم بچوں کا بھی خصوصی خیال رکھئے۔ آپ کی ذرا سی نیکی ان غریب بچوں کے رنجیدہ چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دے گی، جس سے آپ کی عید کی خوشی بھی دوبالا ہو جائے گی اور ہر ایک کے دمکتے چہرے عید کی رونق میں اضافہ کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک عمل توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)