دستور بدلنے کے منصوبے

   

گذری خزاں نہ فصل بہاراں ہی آسکی
گلشن میں اضطراب رہا برہمی رہی
بی جے پی کے قائدین وقفے وقفے سے متنازعہ بیانات دیتے ہوئے سرخیوں میںرہتے ہیں۔ اس طرح کی بیان بازیاں کرتے ہوئے انہیں لگتا ہے کہ وہ ملک میں من مانی قوانین نافذ کرینگے اور ملک کے دستور کو تک بدلنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ انتہائی اشتعال انگیز اور متنازعہ بیانات کے ذریعہ عوام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اب تو ایک پارٹی رکن پارلیمنٹ نے ملک کے دستور ہی تبدیل کرنے کی بات کہدی ہے ۔ پارٹی کے کرناٹک سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ اننت کمار ہیگڈے نے واضح انداز میں کہا ہے کہ ان کی پارٹی کو لوک سبھا میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے دستور کو تبدیل کیا جاسکے ۔ پارٹی رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ کانگریس کے ایوان میں موجود ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ہے اور اس کیلئے پارٹی کارکنوں کو خاموش بیٹھنے کی بجائے پارٹی کو دو تہائی اکثریت دلانے کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ بی جے پی نے رکن پارلیمنٹ کے اس بیان سے خود کو دور کرلیا ہے اور کہا کہ یہ پارٹی کا موقف نہیںہے بلکہ رکن پارلیمنٹ کا شخصی خیال ہے لیکن اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ بی جے پی اور اس کی ہم قبیل تنظیموں سے وابستہ قائدین ملک کے دستور کو ہی نشانہ بناتے ہیں اور دستور کو تبدیل کرنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی بی جے پی لیڈر نے دستور میں تبدیلی کی بات کہی ہے ۔ اس سے قبل بھی دستور کے پیش لفظ سے ’ سکیولر ‘ لفظ کو خارج کرنے کی باتیں بھی کہی گئی تھیں اور وقفہ وقفہ سے اس طرح کے بیانات کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے ۔ اب جبکہ ملک میں انتخابات کا وقت انتہائی قریب آ پہونچا ہے اور کسی بھی وقت انتخابی شیڈول کا اعلان ہوسکتا ہے ایسے میں برسر اقتدار پارٹی کے ایک ذمہ دار رکن پارلیمنٹ کی جانب سے اس طرح کا بیان دیا جانا انتہائی مذموم عمل ہے اور بی جے پی کو اس پر کسی طرح کی تادیبی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ محض اس بیان سے خود کو دور کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ رکن پارلیمنٹ سے جواب طلب کیا جانا چاہئے اور ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے دوسروں کیلئے ایک پیام دینے کی ضرورت ہے ۔
ایک تاثر ملک بھر میں یہ عام ہونے لگا ہے کہ بی جے پی کی ایک منظم حکمت عملی کے تحت اس طرح کی بیان بازیاں کی جاتی ہیں۔ پہلے قائدین کی جانب سے ایسے بیانات دیتے ہوئے ماحول خراب کیا جاتا ہے ۔ سماج میں بے چینی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے ۔ عوام میں ایک دوسرے کے تعلق سے دوریاں اور نفرتیں پیدا کی جاتی ہیں۔ جب عوامی رد عمل شدید ہوجائے تو پھر پارٹی اس بیان سے دور اختیار کرلیتی ہے ۔ بی جے پی کی بھوپال رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے بھی گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن قرار دیا تھا ۔ خود ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ شائد کبھی پرگیہ ٹھاکر کو معاف نہیںکرپائیں گے ۔ تاہم ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ پرگیہ ٹھاکر نے مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور کام جاری رکھے ہیں۔ بی جے پی قیادت اور حکومت کی جانب سے جب اس طرح کے بیانات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے تو پھر ایسے عناصر کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیںاور وہ اپنی زہر افشانیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ملک کے دستور کو ایک مقدس مقام حاصل ہے ۔ دستور کی توہین یا ہتک کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ ملک کا دستور ہی ہے جس نے ہمیں کثرت میں وحدت کی تصویر بنا کر پیش کیا ہے ۔ اس تصویر کو بگاڑنے کا کسی کو بھی حق نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی قائدین کو اس طرح کی بیان بازیوں سے گریز کرنے اور دستور کا احترام کرنے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اسے اس معاملے میں زیادہ سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین جب کبھی کوئی نامناسب بات کرتے ہیں تو انہیںنشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ تاہم جب بات بی جے پی کے قائدین اور ذمہ دار افراد کی آتی ہے تو سبھی گوشوں پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے ۔ بی جے پی کو اس طرح کے عناصر کے خلاف عملا کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ محض بیان سے دوری پر اکتفاء کافی نہیںہوسکتا ۔ ایسے عناصر کو جوابدہ بنانے اور ضرورت پڑنے پر قانونی کارروائی بھی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت حاصل ہوسکے ۔