آج دُنیا سے بات کرنا ہے
تم ذرا سامنے سے ہٹ جاؤ
دہلی انتخابی مہم کا اختتام
دارالحکومت دہلی میں انتخابی مہم اپنے اختتام کو پہونچ چکی ہے ۔ یہاں ہفتہ 8 فبروری کو نئے اسمبلی کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے اور منگل 11 فبروری کو ووٹوں کی گنتی ہوگی ۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی نے گذشتہ پانچ سال تک اپنی حکومت میں جو کام کئے ہیں ان کو بنیاد بناکر وہ انتخابات کا سامنا کر رہی ہے جبکہ بی جے پی نے اس انتخابی مہم میں صرف نفرت گھولنے کا کام کیا ہے ۔ کانگریس لمحہ آخر میں اپنے وجود کا احساس دلانے میدان میں اتری اور اس نے راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے جلسوں کا اہتمام کرتے ہوئے دہلی اور مرکز دونوں ہی حکومتوں کونشانہ بنایا ہے ۔ جہاں تک انتخابی مہم کا سوال ہے ہر ریاست کے انتخابات کی طرح یہ مہم بھی شدت کے ساتھ چلائی گئی ہے ۔ عام آدمی پارٹی جہاں اپنے کام پر اور مستقبل کے منصوبوں پر ووٹ مانگ رہی تھی اسے عوام کی تائید و حمایت بھی ملتی نظر آ رہی تھی ۔ دہلی کے عوام کا کہنا تھا کہ وہ کجریوال زیر قیادت حکومت کے کام کاج سے خوش ہیں اور وہ اس بار بھی اسے ہی موقع دینا چاہتے ہیں۔ جو مختلف سروے اب تک سامنے آئے ہیں ان میں بھی کجریوال حکومت کو اقتدار ملتا ہی دکھائی دے رہا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی انتہائی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی کی کمان سنبھال لی ہے حالانکہ وہ اب پارٹی صدر نہیں رہے ہیں اور صرف وزیر داخلہ ہیںلیکن انہوں نے وزارت کی ذمہ داری کو کہیںپس پشت ڈال کر صرف دہلی انتخابات کو اپنی انا اور وقار کا مسئلہ بنالیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے دہلی میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ ہر اہم لیڈر اور مرکزی وزراء تک نے بھی نفرت کا زہر گھولنے کا کام کیا ہے ۔ عوام کو اشتعال دلاتے ہوئے انہیں ہتھیار اٹھانے کی سمت راغب کیا گیا ہے ۔ اسی طرح کی نفرت انگیز مہم کا نتیجہ تھا کہ جامعہ میں ہو یا شاہین باغ میں ہو کچھ سرپھرے نوجوان بندوق تانے وہاں پہونچ گئے ۔ بی جے پی شائد چاہتی بھی یہی تھی کہ عوام میں نفرت کا زہر گھل جائے اور انتخابی مہم اصل اور بنیادی مسائل سے بھٹک کر اس کی پسندیدہ فرقہ وارانہ خطوط پر پہونچ جائے ۔
مہم کی شروعات وزیر اعظم نے کی اور کہا کہ احتجاجیوں کو ان کے لباس سے پہچانا جائے ۔ پھر نعرے لگنے لگے کہ گولی ماردو ۔ چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ بھی دہلی پہونچ گئے اور کہا کہ جو لوگ حکومت کی من مانی کو بولی سے نہیں مانیں گے انہیں گولی سے منوایا جائیگا ۔ یہ ایسی زبان ہے جو شائد ہی کسی ریاست کے انتخابات میں بولی گئی ہو۔ یہ ایسا ماحول پیدا کردیا گیا جو شائد ہی کسی ریاست کے یا ملک کے انتخابات میںپیدا کیا گیا ہو۔ انتخابی مہم میں حکومتیں اپنے کام کاج کو پیش کرتی ہیں اور مستقبل کے منصوبوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے کام کاج میں نقص کی نشاندہی کی جاتی ہے ۔ اپنے منصوبوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ حکومت کی خامیوں کو گنوایا جاتا ہے اور گذشتہ پانچ سال کی کارکردگی کا جائزہ ہوتا ہے ۔ دہلی میں برسر اقتدار جماعت عام آدمی پارٹی نے تو ضرور ایسا ہی کیا لیکن بی جے پی نے اپنی شکست کے اندیشوں کو محسوس کرتے ہوئے انتخابی نہج کو ہی بدلنے کو ترجیح دی ہے ۔ بی جے پی کے ایک امیدوار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ 8 فبروری کو دہلی کی سڑکوں پر ہندوستان بمقالہ پاکستان ہونگے ۔ یہ ایک اوچھی ذہنیت کی علامت ہے اور اس سے زیادہ غلط پارٹی کے ذمہ داران ہیں جنہوں نے اس کی سرزنش کرنے کی بجائے مزید گوشوں سے ایسی بولیوں کی حوصلہ افزائی شروع کردی تھی ۔ ساری مہم کو ہندو ۔ مسلم رنگ دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔
ایک رکن پارلیمنٹ نے تو دہلی میں اقتدار ملنے پر مساجد کو ڈھا دینے کی بات کی ۔ ایک مرکزی وزیر نے اس بات کی حمایت کی کہ اروند کجریوال دہشت گرد ہیں۔ یہ ساری منفی اور اوچھی ذہنیت کی مہم بی جے پی کی جانب سے چلائی گئی ہے اور اس سب کے باوجود بی جے پی کو دہلی کے عوام کی تائید و حمایت ملتی نظر نہیں آتی ۔ امیت شاہ ہر جلسہ اور ریلی میں شاہین باغ کے نام پر ووٹ مانگتے نظر آئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے پہلے انتخابی جلسہ میں شاہین باغ ہی کا تذکرہ کرتے رہے ۔ ریاست کے عوام کو اصل مسائل اور ایجنڈہ سے ہٹانے کیلئے پاکستان کا تقریبا ہر جلسہ میں تذکرہ کیا گیا ۔ ملک بھر کو دہلی کی انتخابی مہم سے جو پیغام ملا ہے اس سے عوام کو بحیثیت مجموعی مایوسی ہی ہاتھ آئی ہے اور اقدار پر مبنی انتخابی مہم محض ایک سراب بن کر رہ گئی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی حکمت عملی سے گریز کرنا چاہئے ۔